رسائی کے لنکس

داعش کا خطرہ کتنا حقیقی؟


دیر الزور میں داعش کے خلاف کارروائی (فائل)
دیر الزور میں داعش کے خلاف کارروائی (فائل)

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ القائدہ کی طرح داعش نے بھی اپنے ہمدرد اور پیروکار پیدا کئے ہیں جو اس کے نقش قدم پر چلتے ہوئے تشدد کو ہوا دیتے رہتے ہیں، حالانکہ ضروری نہیں ان کا داعش سے کوئی حقیقی تعلق بھی ہو

امریکہ کے صدر نے گزشتہ دنوں اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ داعش کو شکست ہو چکی ہے۔ اور انہوں نے شام سے امریکی فوجیوں کی واپسی کا عندیہ بھی دیا تھا۔ اس اعلان کے بعد، داعش نے ایک مہلک حملے میں چار امریکیوں اور امریکہ کی حمایت سے لڑنے والے پانچ جنگجوؤں کی ایک گشتی ٹیم پر حملہ کرکے انہیں ہلاک کر دیا۔

سوال یہ ہے کہ شام اور عراق کے بڑے حصوں پر اپنی خود ساختہ ’خلافت‘ قائم کرنے اور پھر اپنے زیر کنٹرول علاقوں پر اپنی گرفت ختم ہونے کے بعد اب داعش کی حیثیت کیا ہے اور اس کا آنے والا کل کیا ہوگا؟

داعش کے بارے میں عام طور پر یہ کہا جاتا ہے کہ داعش نے انتہائی ہوشمندی اور ذہانت کے ساتھ مشرق وسطیٰ کے سیاسی مسائل اور سماجی خرابیوں کو آلے کے طور پر استعمال کرتے ہوئے فوج تشکیل دی، لڑائیاں جیتیں اور بڑے علاقے پر قبضہ بھی کیا۔

تجزیہ کاروں سے ہمارا سوال تھا کہ آج شکست کا سامنا کرنے والی داعش کس پوزیشن میں ہے اور کیا آج بھی مشرق وسطیٰ کے جاری بحران سے فائدہ اٹھا سکتی ہے؟ جس کے جواب میں تجزیہ کاروں کا کہنا تھا کہ القائدہ کی طرح داعش نے بھی اپنے ہمدرد اور پیروکار پیدا کئے ہیں جو اس کے نقش قدم پر چلتے ہوئے تشدد کو ہوا دیتے رہتے ہیں، حالانکہ ضروری نہیں ان کا داعش سے کوئی حقیقی تعلق بھی ہو۔

تجزیہ کاروں کے مطابق، جہاں کہیں بھی بد امنی ہوگی اور نظام میں دراڑ آئے گی، وہاں اس نوعیت کے انتہا پسند گروپ اپنے قدم جمانے کی کوشش کریں گے، کیونکہ یہ عدم استحکام سے پیدا ہونے والے خلا کا فائدہ اٹھاتے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ اس طرح کے انتہا پسند گروپوں کو ختم کرنے کے لئے ضروری ہے کہ ان کے مالی اور حربی وسائل کو ختم کیا جائے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق، حکومتوں کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنے نظام اور ڈھانچے کو مضبوط رکھیں، تاکہ انتہا پسندوں کو روکا جا سکے۔

تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ اگر مشرق وسطیٰ میں بد امنی اور عدم استحکام کا ماحول جاری رہتا ہے، تو داعش جیسے گروپ اس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے خود کو دوبارہ منظم کر سکتے ہیں۔

please wait

No media source currently available

0:00 0:05:01 0:00

XS
SM
MD
LG