سال 2017کے مقابلے میں 2018ء کے دوران حملوں میں تقریباً 75 فی صد کمی واقع ہوئی
ایک دفاعی تجزیاتی ادارے کی جانب سے تیار کردہ مطالعاتی رپورٹ سے پتا چلتا ہے کہ سال 2018 میں عالمی دہشت گرد حملوں میں 33 فی صد کمی واقع ہوئی، جب کہ دہشت گردی کے نتیجے میں ہونے والی ہلاکتیں 10 برسوں کی کم ترین سطح پر آگئی ہیں۔
’جینز ٹررزم اینڈ انسرجینسی سینٹر‘ نے بدھ کے روز عالمی حملوں کی فہرست جاری کی ہے، جس میں بتایا گیا ہے کہ دہشت گرد واقعات اور ہلاکتوں میں کمی آنے کی خاص وجوہات میں شام میں تشدد کی کارروائیوں میں آنے والی کمی شامل ہے، جہاں حکومت نے اُن علاقوں پر دوبارہ کنٹرول حاصل کر لیا ہے جو گذشتہ برسوں کے دوران داعش کے زیر قبضہ تھے۔
سال 2017کے مقابلے میں 2018ء کے دوران حملوں میں تقریباً 75 فی صد کمی واقع ہوئی۔
مطالعاتی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ شام کے علاوہ عراق میں بھی داعش کو خاصا نقصان پہنچایا گیا، جس کے نتیجے میں شدت پسندوں کی کارروائیوں میں ’’قابل قدر کمی‘‘ واقع ہوئی، جس کے باعث داعش ’’سرکشی کی کم شدت والی کارروائیوں‘‘ پر محدود ہو کر رہ گئی۔
شام میں شدت پسندی میں کمی آئی۔ لیکن غیر عسکریت پسند افراد کی ہلاکتوں کے لحاظ سے سال 2018میں افغانستان عالمی سطح پر مہلک ترین ملک بن گیا۔ جینز نے کہا ہے کہ گذشتہ سال ان حملوں میں تقریباً ایک تہائی کا اضافہ آیا، جب کہ ہلاکتوں کے اعتبار سے 80 فی صد اضافہ دیکھا گیا۔
یوکرین میں بھی شدت پسندی میں خاصا اضافہ آیا۔ یہاں روسی پشت پناہی والی علیحدگی پسند بغاوت کے حالات میں اُس سے گذشتہ سال کے مقابلے میں گذشتہ سال حملوں میں 18.4 فی صد اضافہ ہوا۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ’’یہ سارا اضافہ‘‘ یوکرین کے مشرق میں واقع ڈونباس کے خطے میں روس کے حامی علیحدگی پسند گروپوں کی کارروائیوں کے نتیجے میں آیا، جہاں علیحدگی پسند تحریک شدت اختیار کر گئی ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 2018ء کے دوران 15321 حملے ریکارڈ کیے گئے، جس کے نتیجے میں 13483 عام لوگ ہلاک ہوئے۔
جینز سال 2009سے اپنی رپورٹ شائع کرتا آیا ہے۔ اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سال 2018کی مطالعاتی رپورٹ سے پتا چلتا ہے کہ 10 سال کی رپورٹوں میں گذشتہ برس کے دوران ہلاکتوں کی تعداد خاصی کم تھی۔