رسائی کے لنکس

کیا پاکستان میں جعلی پولیس مقابلے کبھی ختم ہوں گے؟


سانحۂ ساہیوال میں مارے جانے والے خاندان کے ورثا شدتِ غم سے نڈھال ہیں۔ (فائل فوٹو)
سانحۂ ساہیوال میں مارے جانے والے خاندان کے ورثا شدتِ غم سے نڈھال ہیں۔ (فائل فوٹو)

کراچی کے رہائشی اشتیاق احمد کے لیے 13 جنوری 2018 کی رات قیامت بن کر آئی تھی۔ اس رات ان کے اکلوتے بیٹے انتظار احمد کو ڈیفنس کے علاقے میں فائرنگ کر کے قتل کردیا گیا تھا۔

تحقیقات اور سی سی ٹی وی کیمروں کی فوٹیج سامنے آنے کے بعد یہ عقدہ کھلا کہ فائرنگ کرنے والے کوئی اور نہیں بلکہ پولیس اہلکار تھے۔

ملائیشیا سے تعلیم یافتہ انتظار احمد اپنی ایک خاتون دوست کے ہمراہ کار میں سوار تھا۔ لیکن، حیرت انگیز طور پر فائرنگ کے دوران خاتون کو کوئی نقصان نہیں پہنچا تھا مگر انتظار کے سینے میں پیوست گولیوں نے اس کی زندگی چھین لی۔

پولیس افسران اسے "مقابلہ" قرار دے رہے تھے، لیکن سی سی ٹی وی فوٹیجز نے پولیس کے جھوٹے دعوؤں کی قلعی کھول دی۔ لیکن ایک سال گزر جانے کے بعد بھی پولیس اب تک اس قتل کے تمام ملزمان کو گرفتار نہیں کرسکی ہے اور اس وجہ سے ٹرائل بھی شروع نہیں ہوسکا۔

سونے پہ سہاگہ یہ کہ جس پولیس افسر کے خلاف کیس کی تحقیقات کے لیے قائم جے آئی ٹی نے محکمہ جاتی کارروائی کی سفارش کی تھی اسے چند ماہ کی معطلی کے بعد نئی پوسٹنگ دے دی گئی۔

انتظار کے والد اشتیاق احمد کو قاتلوں کے کیفرِ کردار تک پہنچنے کی کوئی خاص امید ہے اور نہ ہی وہ اب تک کی تحقیقات سے مطمئن ہیں۔ لیکن اس کے باوجود بھی وہ اپنی جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہیں۔

اُن کے بقول، "میری تو دنیا ہی اجڑ گئی۔ کوئی پولیس سے پوچھنے والا نہیں۔ دو چار کو سزا ملے تو ہی یہ سدھر سکتے ہیں۔ میں اسی وجہ سے کیس لڑ رہا ہوں کہ کسی اور کے انتظار کو بے گناہی کی سزا نہ بھگتنا پڑے۔"

پولیس کی گولیوں کا نشانہ بننے والا انتظار احمد بغیر کسی قصور کے سرکاری اہلکاروں کے ہاتھوں قتل ہونے والے افراد کی فہرست میں درج ہونے والا نہ پہلا نام ہے اور نہ شاید آخری۔

اپنے گھر کا واحد کفیل مقصود احمد ہو یا قبائلی نوجوان نقیب اللہ محسود، یا پھر نو سالہ ہنستی مسکراتی ایمل، گزشتہ سال یہ سب پولیس کے غیر پیشہ وارانہ رویے یا پھر 'نمبر لے جانے' کی غرض سے کی جانے والی کارروائیوں کی نذر ہو گئے۔

جنوری 2018 میں کراچی کے علاقے شاہ لطیف ٹاؤن میں قبائلی نوجوان اور سوشل میڈٰیا پر شہرت پانے والے نوجوان نقیب اللہ محسود کو چار دیگر افراد کے ہمراہ اغوا کے بعد قتل کردیا گیا تھا۔ پولیس نے ان تمام کا تعلق کالعدم تحریک طالبان سے قرار دیا تھا۔ تاہم، سوشل میڈیا پر تنقید کے بعد حکومت سندھ نے واقعے کی تحقیقات کرانے کا اعلان کیا جس کے بعد یہ بات سامنے آئی تھی کہ یہ واقعہ جھوٹا پولیس مقابلہ تھا۔

سپریم کورٹ آف پاکستان کی جانب سے معاملے پر از خود نوٹس لینے پر راؤ انوار پہلے روپوش ہوگیا تھا، لیکن پھر خود کو قانون کے حوالے کردیا تھا۔ تاہم، عدالت سے دونوں مقدمات میں ضمانت ملنے کےبعد جولائی میں ان کی رہائی عمل لائی گئی تھی۔ حال ہی میں سپریم کورٹ نے راؤ انوار کے بیرون ملک جانے کی اجازت سے متعلق درخواست مسترد کر دی تھی۔

کراچی میں جون 2011ء میں سندھ رینجرز کے جوانوں کے ہاتھوں کیمرے کے سامنے ایک شخص کے قتل کی ویڈیو بھی ساری دنیا نے دیکھی۔ پھر جون 2013ء میں رینجرز اہلکاروں کے ہاتھوں ایک ٹیکسی ڈرائیور مارا گیا۔

کراچی شہر کے علاوہ بھی ہمیں کوئٹہ کے علاقے خروٹ آباد اور ساہیوال جیسے ’پولیس مقابلوں‘ کی ایک لمبی فہرست نظر آتی ہے۔

سابق گورنر اور وزیرِ داخلہ اور پاکستان کی بری فوج میں 35 سال خدمات انجام دینے والے لیفٹننٹ جنرل ریٹائرڈ معین الدین حیدر کا کہنا ہے کہ انسدادِ دہشت گردی کی کارروائیوں کے باقاعدہ قواعد و ضوابط موجود ہیں جن کے تحت یہ کارروائیاں کی جانی چاہئیں۔

انہوں نے بتایا کہ ایسے آپریشنز میں پہلے سے یہ ریکی ہونی چاہیے کہ ملنے والی معلومات درست ہے یا نہیں، کم سے کم انسانی نقصان ہو، اگر مزاحمت نہیں کی جارہی تو زندہ گرفتاری ہی عمل میں لائی جائے۔ ایسے قواعد تو عام طور پر سبھی کو پتا ہیں مگر جس طرح دیگر قوانین پر عمل درآمد نہیں کیا جاتا، ویسے ہی ان کا بھی یہی حال ہے۔

معین الدین حیدر کا کہنا ہے کہ ادارے کمزور پڑ چکے ہیں، جس طرح ان کا احتساب ہونا چاہیے تھا ویسا نہیں ہو پا رہا۔ پولیس جن قوانین کے تحت کام کر رہی ہے وہ 1861ء کے قوانین ہیں۔ پولیس قوانین میں اصلاحات، جدید ٹریننگ، شواہد اکھٹا کرنے کی صلاحیت بڑھانے اور پراسیکیوشن کو مضبوط بنانے کی اشد ضرورت ہے۔

سابق گورنر کے مطابق حکمرانوں کو یہ سب حقائق معلوم تو ہیں مگر سیاسی عزم کی کمی صورتِ حال کی بہتری میں آڑے آتی ہے۔ اکثر سیاسی جماعتیں یہی چاہتی ہیں کہ پولیس انہی کی وفادار بن کر رہے۔ ایسے میں پیشہ وارانہ تربیت اور بہتری کیسے ممکن ہوگی؟

انسانی حقوق کمیشن آف پاکستان کی رپورٹ کے مطابق گزشتہ پانچ سال میں 2127 واقعات میں 3353 افراد پولیس مقابلوں میں مارے گئے۔

ایچ آر سی پی کی شریک چیئرپرسن عظمیٰ نورانی کا کہنا ہے کہ پولیس مقابلوں میں بے گناہ شہریوں کی ہلاکتوں کا معاملہ نہایت سنگین ہے۔ اس کے لیے ایسی اپروچ کی ضرورت ہے کہ دہشت گردی کے خلاف کارروائیوں میں ہونے والے بلاوجہ کے نقصانات سے بچا جاسکے۔

ان کے بقول، دہشت گردی کے خلاف کارروائیوں میں شفافیت اور انصاف کے نظام میں بہتری لانے کی ضرورت ہے ورنہ ایسے سانحات بین الاقوامی سطح پر بھی پاکستان کا نام داغدار کرتے رہیں گے۔

XS
SM
MD
LG