رسائی کے لنکس

نواز شریف کی میڈیکل رپورٹ پنجاب حکومت کو موصول


فائل فوٹو
فائل فوٹو

سابق وزیر اعظم نواز شریف کی تازہ میڈیکل رپورٹ پنجاب حکومت کو موصول ہو گئی ہے۔ نواز شریف کی میڈیکل رپورٹ مسلم لیگ (ن) کے ڈپٹی سیکریٹری جنرل عطاء اللہ تارڑ نے چیف سیکریٹری پنجاب اعظم سلیمان کو ارسال کی۔

چیف سیکریٹری پنجاب اعظم سلیمان کو لکھے گئے خط میں کہا گیا ہے کہ نواز شریف کی صحت اچھی ہونے کے حوالے سے حکومتی وزرا اور ذرائع ابلاغ کی رپورٹس من گھڑت ہیں۔

خیال رہے کہ سابق وزیر اعظم نواز شریف کی شہباز شریف سمیت اپنے اہل خانہ اور پارٹی رہنماؤں کے ہمراہ لندن کے ایک ریستوران میں کھانے کی تصویر وائرل ہوئی تھی۔

اس سے قبل منگل کو پاکستان کے صوبۂ پنجاب کی وزیرِ صحت ڈاکٹر یاسمین راشد نے نیوز کانفرنس کے دوران کہا تھا کہ نواز شریف کے معالجین نے اُن کے علاج سے متعلق کوئی نئی رپورٹ نہیں بھیجی۔ نواز شریف سزا یافتہ ہیں، انہیں کس بنیاد پر مزید وقت دیا جائے؟

ڈاکٹر یاسمین راشد نے کہا تھا کہ نواز شریف کی وائرل ہونے والی تصویر پر بہت سے خدشات ہیں۔ اُنہیں عدالت نے علاج کے لیے چھ ہفتوں کی ضمانت دی تھی جو گزشتہ ماہ 25 دسمبر 2019 کو ختم ہو چکی ہے۔

یاسمین راشد نے کہا کہ 27 دسمبر کو نواز شریف کے وکیل نے ان کی میڈیکل رپورٹ بھجوائی تھیں۔ رپورٹ کی بنیاد پر پنجاب حکومت کے میڈیکل بورڈ کا اجلاس طلب کیا گیا جس میں فیصلہ ہوا کہ میڈیکل رپورٹ نامکمل ہے اور ان میں کوئی نئی بات نہیں بتائی گئی۔

ڈاکٹر یاسمین راشد کے بقول "نواز شریف کے معالج کی جانب سے خط لکھا گیا۔ خط میں نواز شریف کی پرانی بیماریوں کی تفصیلات بتائی گئیں۔ رپورٹس میں جن بیماریوں کا ذکر ہے ہم پہلے سے جانتے ہیں۔"

انہوں نے کہا کہ نواز شریف کی ریستوران میں تصویر دیکھنے کے بعد انہوں نے ڈاکٹر عدنان کو فون کیا اور ان سے پوچھا کہ کیا نواز شریف کا گھومنا ان کے علاج کا حصہ ہے؟

وزیر صحت پنجاب، ڈاکٹر یاسمین راشد (فائل فوٹو)
وزیر صحت پنجاب، ڈاکٹر یاسمین راشد (فائل فوٹو)

وزیرِ صحت پنجاب نے مزید کہا کہ ہمیں نواز شریف کے علاج سے متعلق کوئی اطلاع نہیں ہے۔

ڈاکٹر یاسمین راشد نے کہا کہ انہیں نہیں لگتا کہ نواز شریف لندن میں علاج کرا رہے ہیں۔ اگر ان کی طبیعت بہتر ہو گئی ہے تو حکومت کو رپورٹ بھیجیں۔ ان کے بقول حکومت کو کچھ معلومات نہیں کہ لندن میں کیا علاج ہو رہا ہے۔ بتایا جائے کہ کیا سیر سپاٹے بھی علاج کا حصہ ہیں؟

ڈاکٹر یاسمین راشد کے بقول "ایک طرف بیٹی ابّا کی تیمارداری کے لیے درخواست دے رہی ہے، کیا وہ ابا کی ریستوران میں بیٹھ کر تیمارداری کریں گی؟ چھ ہفتے میں کچھ نہیں ہوا تو کیوں نہیں ہوا؟ پھر کس بنیاد پر آپ مزید توسیع کے لیے درخواست دے رہے ہیں؟"

وزیر صحت پنجاب نے کہا کہ نواز شریف کے ذاتی معالج ڈاکٹر عدنان کو کہا ہے کہ جو کچھ ہو رہا ہے، تحریری طور پر بھجوائیں۔ ہوا خوری ریستوران میں کب ہوتی ہے؟

ڈاکٹر یاسمین راشد نے طنز کرتے ہوئے کہا کہ کیا ریستوران کی آب و ہوا بہت اچھی تھی یا وہ خاص ہوا والا ریستوران تھا جہاں نواز شریف گئے۔

مسلم لیگ (ن) کا ردّعمل

پاکستان مسلم لیگ (ن) کی ترجمان مریم اورنگزیب نے وزیرِ صحت پنجاب کی پریس کانفرنس کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ وزیرِ اعظم عمران خان کے دباؤ پر یاسمین راشد نے جھوٹ پر مبنی سیاسی پریس کانفرنس کی ہے۔

انہوں نے کہا کہ "ڈاکٹر یاسمین! عمران صاحب کو بتائیں کہ نواز شریف کا آج بھی 'ریبیوڈیم پی ای ٹی' اسکین ہوا ہے۔"

مسلم لیگ (ن) کی ترجمان نے کہا کہ یاسمین راشد نے نواز شریف کے ٹیسٹ کی رپورٹ موجود ہونے کے باجود میڈیا میں سیاسی تماشا کیا۔ ڈاکٹر یاسمین راشد کے خود ڈاکٹر ہونے کے باوجود عمران صاحب کے دباؤ پر کی گئی پریس کانفرنس قابلِ افسوس ہے۔

انہوں نے کہا کہ عمران خان کی حکومت پر اب ترس آتا ہے کہ آج تک ان کی ترجیح اور سیاست صرف نواز شریف کی صحت تک محدود ہے۔ انہوں نے وزیرِ صحت پنجاب کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اگر بہت خدشات اور فکر ہے تو یاسمین راشد خود لندن چلی جائیں۔

مریم اورنگزیب کے بقول "کیا ہی اچھا ہوتا کہ ڈاکٹر یاسمین راشد سرکاری اسپتالوں میں علاج اور ادویات کی بندش پر پریس کانفرنس کرتیں۔ بہتر ہوتا کہ ادویات مہنگی ہونے اور غریبوں کے مفت ٹیسٹ کی سہولت ختم ہونے پر بات کرتیں۔"

مسلم لیگ (ن) کی ترجمان مریم اورنگزیب (فائل فوٹو)
مسلم لیگ (ن) کی ترجمان مریم اورنگزیب (فائل فوٹو)

طبّی بنیادوں پر ضمانت

نواز شریف کو لاہور ہائی کورٹ نے چوہدری شوگر ملز کیس میں طبّی بنیادوں پر ضمانت دیتے ہوئے ایک ایک کروڑ کے دو مچلکے جمع کرانے کا حکم دیا تھا۔ اسلام آباد ہائی کورٹ نے العزیزیہ ریفرنس میں طبّی و انسانی ہمدردی کی بنیاد پر نواز شریف کی سزا چھ ہفتوں کے لیے معطل کر دی تھی۔

حکومت نے نواز شریف کو بیرونِ ملک علاج کے لیے جانے کی غرض سے انڈیمنٹی بانڈ کی شرط رکھی تھی جسے لاہور ہائی کورٹ نے ختم کر دیا تھا۔

عدالت نے بیان حلفی کی بنیاد پر نواز شریف کو چار ہفتوں کے لیے بیرونِ ملک جانے کی اجازت دے دی تھی۔ جس کے بعد نواز شریف 19 نومبر 2019 کو لندن روانہ ہو گئے تھے۔

XS
SM
MD
LG