رسائی کے لنکس

سستا تیل چاہیے تو مشرقِ وسطیٰ سے دور رہو: ایران کا امریکہ کو انتباہ


بیژن نامدار نے تیل کی قیمتوں میں حالیہ اضافے کا ذمہ دار صدر ٹرمپ کو قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس بارے میں تیل پیدا کرنے والے ممالک کی نمائندہ تنظیم 'اوپیک' کو کوئی قصور نہیں۔

ایران کے وزیر برائے تیل بیژن نامدار زنگنہ نے کہا ہے کہ اگر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ چاہتے ہیں کہ عالمی منڈی میں تیل کی قیمتیں نہ بڑھیں تو انہیں مشرقِ وسطیٰ کے معاملات میں مداخلت سے باز رہنا چاہیے۔

خبر رساں ادارے 'رائٹرز' کے مطابق اپنے ایک بیان میں ایرانی وزیر نے کہا ہے کہ صدر ٹرمپ ایران کی تیل کی برآمدات محدود کرنے کی سر توڑ کوششیں کر رہے ہیں اور ساتھ ہی وہ چاہتے ہیں کہ تیل کی قیمتوں میں اضافہ بھی نہ ہو۔

ایرانی وزیر کے بقول ان دونوں باتوں کا ایک ساتھ ہونا ممکن نہیں اور اگر امریکی صدر واقعی چاہتے ہیں کہ عالمی منڈی میں تیل کی قیمتیں نہ چڑھیں اور منڈی عدم استحکام کا شکار نہ ہو تو انہیں مشرقِ وسطیٰ میں غیر ضروری مداخلت اور ابتری پھیلانے سے باز رہنا چاہیے۔

بیژن نامدار نے تیل کی قیمتوں میں حالیہ اضافے کا ذمہ دار صدر ٹرمپ کو قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس بارے میں تیل پیدا کرنے والے ممالک کی نمائندہ تنظیم 'اوپیک' کو کوئی قصور نہیں۔

انہوں نے کہا کہ ٹرمپ حکومت کی پالیسیوں سے عالمی منڈی متاثر ہوئی ہے جس سے تیل کی قیمتیں بڑھی ہیں لیکن صدر ٹرمپ اپنے کیے کا الزام 'اوپیک' پر دھر رہے ہیں۔

ایرانی وزیر نے دعویٰ کیا کہ 'اوپیک' ممالک اتنی پیداوار دینے کے قابل نہیں کہ وہ ایرانی تیل کی برآمدات کی معطلی کی صورت میں عالمی منڈی میں پیدا ہونے والے خلا کو پر کرسکیں۔

ایرانی وزیرِ تیل کا یہ بیان گزشتہ روز صدر ٹرمپ کے اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کے ردِ عمل میں سامنے آیا ہے جس میں امریکی صدر نے 'اوپیک' کے رکن ملکوں پر زور دیا تھا کہ وہ تیل کی قیمتیں بڑھانے کے بجائے اس کی پیداوار بڑھائیں تاکہ طلب اور رسد کا فرق کم کیا جاسکے۔

اپنے خطاب میں صدر ٹرمپ نے ایران پر مشرقِ وسطیٰ میں انتشار کے بیج بونے کا بھی الزام عائد کیا تھا اور کہا تھا کہ ان کی حکومت تہران حکومت پر نئی پابندیاں عائد کرے گی۔

امریکی حکومت ایرانی تیل کی برآمدات پر پابندیاں عائد کرنے کا اعلان کرچکی ہے جن کا نفاذ چار نومبر سے ہوگا۔

ایران تیل کی برآمدات کے اعتبار سے 'اوپیک' کا تیسرا بڑا رکن ہےاور اگر اس کی برآمدات پر پابندی عائد کی گئی تو خدشہ ہے کہ طلب اور رسد کا فرق بڑھنے سے تیل کی عالمی منڈی عدم استحکام سے دوچار ہوگی جس کا اثر تیل کی قیمتوں پر پڑے گا۔

امریکی حکومت ایران سے تیل خریدنے والے کئی ملکوں کو ایران سے درآمد بند کرنے پر قائل کرنے کی کوشش کر رہی ہے لیکن تاحال اسے ان کوششوں میں کوئی قابلِ ذکر کامیابی نہیں ہوئی ہے۔

گزشتہ روز ہی دنیا کی پانچ بڑی طاقتوں – چین، روس، برطانیہ، فرانس اور جرمنی – نے ایران سے 'بارٹر سسٹم' کےتحت تیل خریدنے کا اعلان کیا تھا جس کے تحت ایران کو تیل کی قیمت کے عوض درکار اشیا فراہم کی جائیں گی۔

XS
SM
MD
LG