رسائی کے لنکس

اسرائیل کا اگلا وزیر اعظم کون ہوگا؟


بینی گینز اور بن یامین نیتن یاہو حریف جماعتوں کے سربراہ ہیں۔ دونوں ہی اتحادی حکومت کی قیادت کے خواہش مند ہیں — فائل فوٹو
بینی گینز اور بن یامین نیتن یاہو حریف جماعتوں کے سربراہ ہیں۔ دونوں ہی اتحادی حکومت کی قیادت کے خواہش مند ہیں — فائل فوٹو

اسرائیل کے سال میں دوسری بار ہونے والے انتخابات میں ایک بار پھر کوئی جماعت واضح برتری حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکی، جبکہ سب سے زیادہ نشستیں حاصل کرنے والی دونوں جماعتوں کے سربراہ اتحادی حکومت کی قیادت کے خواہش مند ہیں۔

وزیر اعظم بن یامین نیتن یاہو نے حریف جماعت کے رہنما بینی گینز کو اتحادی حکومت بنانے کی دعوت دی ہے۔ نیتن یاہو کی یہ حکمت عملی انتخابات میں واضح اکثریت حاصل نہ کرنے کے بعد سامنے آئی ہے۔

دوسری جانب بینی گینز نے بھی صرف اس اتحادی حکومت میں شمولیت پر زور دیا ہے جس کی قیادت وہ خود کر رہے ہوں۔

رواں سال دوسری بار ہونے والے انتخابات میں 120 رکنی ایوان میں نیتن یاہو کی جماعت کو 31 جبکہ گینز کی قیادت میں بلیو اینڈ وائٹ کو 33 نشستیں ملی ہیں۔

اسرائیل کی فوج کے سابق سربراہ بینی گینز کسی حد تک لبرل سمجھی جانے والی جماعتوں کے اتحاد 'بلیو اینڈ وائٹ' کے سربراہ ہیں۔

گولان ہائٹس میں ’ٹرمپ ہائٹس‘
please wait

No media source currently available

0:00 0:00:59 0:00

انتہائی دائیں بازو کی قدامت پسند جماعت لیکوڈ پارٹی کے سربراہ بن یامین نیتن یاہو کی جانب سے بینی گینز کو شراکت اقتدار کی دعوت کو انتہائی غیر متوقع قرار دیا جا رہا ہے۔

نیتن یاہو کے انتخابات سے قبل بیانات بھی سامنے آئے تھے کہ وہ دائیں بازو کی حامی جماعتوں کی حکومت بنائیں گے۔ لیکن، الیکشن میں واضح برتری نہ ملنے پر لبرل جماعت کو حکومت میں شمولیت کی دعوت کی غیر متوقع سیاسی حکمت عملی دیکھنے میں آئی ہے۔

اب نیتن یاہو کا ایک اور ویڈیو بیان سامنے آیا ہے جس میں دائیں بازو کی جماعتوں کے ساتھ مل کر حکومت بنانے پر انہوں نے کہا ہے کہ انتخابات کے نتائج دیکھ کر ایسا ہونا اب ممکن نظر نہیں آ رہا۔

انہوں نے حریف رہنما بینی گینز کو حکومت میں شمولیت کی دعوت دیتے ہوئے کہا کہ ہمیں فوری طور پر ایک وسیع مخلوط حکومت بنانی چاہیے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ہم دونوں سے قوم کو بہت سی توقعات ہیں اس لیے ہمیں ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔

انہوں نے زور دیتے ہوئے کہا کہ ہمیں اشتراک جاری رکھنا ہوگا۔

بینی گینز — فائل فوٹو
بینی گینز — فائل فوٹو

دوسری جانب، اسرائیل کے صدر ریوین ویولین نے بن یامین نیتن یاہو کی جانب سے اپنے مخالف کے ساتھ مل کر اتحادی حکومت بنانے کی دعوت کو خوش آئند قرار دیا ہے۔

خبر رساں ادارے 'رائٹرز' کے مطابق، انتخابات کے بعد صدر کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ حکومت کے قیام کی منظوری دیں۔

اسرائیل کے سابق صدر شمون پیریز کی تیسری برسی کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے ریوین ویولین نے کہا کہ وزیر اعظم میں آپ کو اس دعوت دینے پر مبارک باد دیتا ہوں۔ یہ ایک اہم اعلان تھا۔

خیال رہے کہ اس تقریب میں وزیر اعظم بن یامین نیتن یاہو اور بینی گینز دونوں ہی موجود تھے۔

مبصرین خیال ظاہر کر رہے ہیں کہ بن یامین نیتن یاہو کا اگر بینی گینز سے معاہدہ ہوا تو اس میں ایک مقررہ مدت کے بعد وزارت عظمیٰ پر تبدیلی بھی شامل ہو سکتی ہے۔ جس میں بن یامین نیتن یاہو کی جگہ بینی گینز وزیر اعظم بن جائیں گے۔

نیتن یاہو — فائل فوٹو
نیتن یاہو — فائل فوٹو

واضح رہے کہ اسرائیل میں یہ رواں برس دوسری بار انتخابات ہو رہے ہیں۔ پانچ ماہ قبل اپریل میں ہونے والے انتخابات میں بھی کوئی جماعت واضح اکثریت حاصل کرنے میں ناکام رہی تھی۔ بن یامین نیتن یاہو کی لیکوڈ پارٹی اور بینی گینز کی بلیو این وائٹ پارٹی نے 35، 35 نشستیں حاصل کی تھیں۔

اسرائیل کی پارلیمان کینسٹ 120 نشستوں پر مشتمل ہے جس میں اکثریت کے لیے 61 ارکان کی حمایت حاصل ہونا ضروری ہے۔

اسرائیل کے روز نامے 'ہیرٹز' کے مطابق دو روز قبل منگل کے دن ہونے والے انتخابات میں بینی گینز کی بلیو اینڈ وائٹ پارٹی نے 33 جبکہ بن یامین نیتن یاہو کی جماعت لیکوڈ پارٹی نے 31 نشستیں حاصل کی ہیں، جبکہ باقی نشستیں دیگر جماعتوں نے اپنے نام کی ہیں۔

مبصرین کے مطابق، بن یامین نیتن یاہو اس وقت انتہائی کمزور پوزیشن پر آ چکے ہیں۔ اگر حزب اختلاف کے ساتھ ان کا معاہدہ ہو جاتا ہے تو بھی وہ وزارت عظمی کی مدت پوری نہیں کر سکیں گے، کیونکہ معاہدے میں مقررہ مدت کے بعد بینی گینز کو وزارت عظمیٰ کا عہدہ دینا ہوگا۔

دوسری جانب بینی گینز اب خود اتحادی حکومت کے خواہاں ہیں ایسے میں وزارت عظمیٰ کا منصب کس کے پاس ہوگا اسرائیل میں سب سے اہم موضوع بن چکا ہے۔

فائل فوٹو
فائل فوٹو

اخبار 'ہیرٹز' نے اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ اس وقت لبرل سمجھی جانے والی جماعتوں کے اتحاد کو 57 نشستیں حاصل ہو چکی ہیں جبکہ قدامت پسند دائیں بازو کی جماعتوں کے پاس 55 نشستیں ہیں۔

بینی گینز کی جماعت شروع سے ہی بن یامین نیتن یاہو کی قیادت میں کسی بھی حکومت یا اتحاد کا حصہ بننے سے انکار کرتی آئی ہے۔ وہ انکار کی وجہ نیتن یاہو پر لگنے والے بدعنوانی کے الزامات کو ٹھہراتے ہیں۔

واضح رہے کہ بن یامین نیتن یاہو 2005 سے لیکوڈ پارٹی کی قیادت کر رہے ہیں جبکہ وہ 2009 سے اسرائیل کے وزیر اعظؐم ہیں۔ وہ 2009، 2013، 2015 اور اپریل 2019 کے انتخابات کے بعد وزیر اعظم منتخب ہوتے آئے ہیں۔

بن یامین نیتن یاہو کے حریف بینی گینز نے رواں برس فروری میں اپنی تین جماعتوں کا اتحاد بلیو اینڈ وائٹ کے نام سے بنایا تھا۔ جس میں معتدل یا لبرل سمجھی جانے والی جماعتیں شامل تھیں۔ بینی گینز 2015 میں اسرائیل کی فوج سے بحیثیت چیف آف جنرل اسٹاف ریٹائر ہوئے تھے۔

انہوں نے دسمبر 2018 میں اپنی سیاسی جماعت 'اسرائیل ریزیلینس پارٹی' بنائی جس کے بعد اپریل میں انہوں نے دیگر دو جماعتوں سے اتحاد کرکے الیکشن لڑا اور اپریل میں 35 نشستوں کے ساتھ لیکوڈ پارٹی کے لیے مشکلات میں اضافہ کیا۔
بینی گینز نے کبھی بھی اسرائیل اور فلسطین کے درمیان تنازع پر دو ریاستی حل کی حمایت یا مخالفت نہیں کی۔ تاہم، وہ گولان کی پہاڑیوں کو اسرائیل کا حصہ مانتے ہیں۔

یاد رہے کہ اسرائیل کے وزیرِ اعظم بن یامین نیتن یاہو نے انتخابات میں کامیابی کی صورت میں مغربی کنارے سے منسلک وادی اردن کو اسرائیل میں شامل کرنے کے منصوبے کا اعلان کیا تھا۔

وزیرِ اعظم بن یامین نیتن یاہو نے کہا تھا کہ نئی حکومت کے قیام کے بعد وہ اسرائیل کی حدود کو وادی اردن اور شمالی بحیرۂ مردار تک بڑھا دیں گے۔

انہوں نے اپنے اس منصوبے کو 'اسرائیلی مشرقی سرحد' کا نام دیا تھا۔

یاد رہے کہ وادی اردن اور شمالی بحیرۂ مردار کے علاقے میں 65 ہزار فلسطینی اور 11 ہزار اسرائیلی مقیم ہیں۔

بن یامین نیتن یاہو کا مزید کہنا تھا کہ اگر عوام نے اُنہیں انتخابات میں واضح اکثریت سے کامیاب کیا تو وہ اپنے اس منصوبے پر اقتدار سنبھالنے کے فوری بعد عمل در آمد یقینی بنائیں گے۔

فائل فوٹو
فائل فوٹو

واضح رہے کہ امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ وہ اسرائیل کے انتخابات کے بعد مشرق وسطیٰ میں قیام امن کے لیے 'ٹرمپ پیس پلان' کا اعلان کریں گے۔

یاد رہے کہ صدر ٹرمپ کے داماد جیرڈ کشنر گزشتہ دو برس سے اسرائیل فلسطین تنازع کے حل کے لیے ایک منصوبے پر کام کر رہے ہیں جسے 'ٹرمپ پیس پلان' کا نام دیا گیا ہے۔

یہ منصوبہ 50 ارب ڈالر کا اقتصادی پروگرام ہے جو مشرق وسطیٰ میں شامل ممالک فلسطین، اردن، مصر اور لبنان کے لیے ہے۔

XS
SM
MD
LG