رسائی کے لنکس

پاک بھارت جوہری جنگ کے خطرات بڑھ گئے ہیں: امریکی تھنک ٹینک


فائل فوٹو
فائل فوٹو

امریکہ کے ایک تھنک ٹینک نے تنبیہ کی ہے کہ کشمیر کی حالیہ صورت حال کے باعث بھارت اور پاکستان کے درمیان جوہری جنگ کے خطرات بڑھ گئے ہیں۔

معروف جیو پولیٹیکل انٹیلی جینس پلیٹ فارم 'اسٹارٹ فار' نے اپنی رپورٹ میں تنازع کشمیر کو بھارت کا اندرونی معاملہ یا پاکستان و بھارت کا باہمی تنازع قرار دینے کے برعکس عالمی امن اور سلامتی کا مسئلہ گردانا ہے۔

بھارت کے وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ نے 16 اگست کو ایک بیان میں کہا تھا کہ نئی دہلی اب تک جوہری ہتھیار پہلے استعمال نہ کرنے کی پالیسی (نو فرسٹ یوز پالیسی) پر عمل پیرا تھا تاہم مستقبل میں اس حوالے سے فیصلہ حالات پر منحصر ہے۔ اس بیان کا حوالہ دیتے ہوئے رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ جنوبی ایشیا کی دو جوہری طاقتوں کے درمیان ایٹمی جنگ کا خدشہ بڑھ گیا ہے۔

کشمیر کا ذکر کرتے ہوئے رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ متنازع علاقے میں جاری کشیدگی جنوبی ایشیا میں جوہری ہتھیاروں کے لیے چنگاری بن سکتی ہے۔

واضح رہے کہ راج ناتھ سنگھ نے یہ بیان ایک ایسے وقت میں دیا تھا جب بھارت نے صرف چند روز قبل پانچ اگست کو نئی دہلی کے زیر انتظام کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کے لیے آئین کے آرٹیکل 370 کو منسوخ کیا تھا جس پر پاکستان نے شدید رد عمل ظاہر کیا۔

بھارت کی جانب سے پانچ اگست کو ریاست کی خصوصی آئینی حیثیت ختم کرنے کے اقدام کے بعد سے کشمیر میں حالات کشیدہ ہیں۔ 20 روز گزرنے کے باوجود معمولات زندگی بحال نہیں ہو سکے ہیں۔ کئی علاقوں میں متواتر کرفیو نافذ رہا ہے جب کہ عید اور جمعے کو نماز کے لیے بڑے اجتماعات کی بھی اجازت نہیں دی گئی تھی۔

دفعہ 370 کے خاتمے کے بعد اب کیا ہوگا؟
please wait

No media source currently available

0:00 0:02:25 0:00

بھارت کے وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ کے بیان کو مختلف تھنک ٹینک اور جریدے ایٹمی جنگ کی دھمکی قرار دے چکے ہیں۔

امریکی تھنک ٹینک کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ بھارت اور پاکستان کی افواج کے پاس اسٹریٹجک اور ٹیکٹیکل جوہری ہتھیار ہیں۔ جو دونوں جانب کے فوجی افسران میدان جنگ میں بڑی آبادی کو نشانہ بنانے کے لیے استعمال کر سکتے ہیں۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ امریکہ نے 'ہیرو شیما' اور 'ناگا ساکی' پر 1945 میں جوہری بم گرائے تھے۔ اگر پاکستان اور بھارت کے درمیان جنگ میں جوہری ہتھیار استعمال ہوئے تو یہ آٹھ دہائیوں میں دوسری بار جوہری ہتھیاروں کا استعمال ہو گا۔

پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان نے حالیہ دنوں میں امریکی اخبار 'نیو یارک ٹائمز' کو دیے گئے انٹرویو میں اس خدشے کا اظہار کیا تھا کہ بھارت پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں فوجی در اندازی کر سکتا ہے۔

جوہری جنگ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ پاکستان پر ممکنہ حملے کے نتیجے میں جنگ کو محدود رکھنا ممکن نہیں ہو گا۔

راج ناتھ سنگھ کے بیان کے بعد وزیر اعظم عمران خان نے ایک ٹوئٹ میں بھارتی جوہری ہتھیاروں کی حفاظت پر سوال اٹھاتے ہوئے خدشہ ظاہر کیا تھا کہ بھارت کے جوہری ہتھیار ایک فسطائی اور نسل پرست ہندو وزیر اعظم کے زیر انتظام کیسے محفوظ رہ سکتے ہیں؟

بھارت نے 1998 کے جوہری دھماکوں کے بعد نو فرسٹ یوز کی پالیسی پر عمل پیرا ہونے کا اعلان کیا تھا۔

بھارت کے سابق وزیر دفاع منوہر پاریکر نے بھی 2016 میں نو فرسٹ یوز پالیسی کے بارے میں بیان دیتے ہوئے کہا تھا کہ انڈیا کو اس پالیسی پر عمل پیرا ہونے کی کیا ضرورت ہے۔ تاہم بعد ازاں وزارت دفاع کی جانب سے جاری کی گئی باضابطہ وضاحت میں کہا گیا تھا کہ وہ بیان منوہر پاریکر نے ذاتی حیثیت میں دیا تھا۔

اس حوالے سے تجزیہ کار لیفٹیننٹ جنرل (ر) طلعت مسعود نے 'وائس آف امریکہ' سے بات کرتے ہوئے کہا کہ کشمیر میں جاری بھارت کی کارروائیوں پر پاکستان کا ردِ عمل آیا ہے جب کہ دونوں ممالک کے درمیان بات چیت منقطع ہو چکی ہے اور سفارتی تعلقات محدود بھی ہیں۔

امریکی تھنک ٹینک کی رپورٹ کو زمینی حقائق کے قریب قرار دیتے ہوئے طلعت مسعود کا مزید کہنا تھا کہ آنے والے دنوں میں لائن آف کنٹرول پر جھڑپیں تیز ہو سکتی ہیں جس کے نتیجے میں ممکن ہے کہ معاملات ہاتھ سے نکل جائیں۔

جوہری معاملات کے حوالے سے رپورٹنگ کرنے والے صحافی فرحان بخاری کہتے ہیں کہ بھارت اور پاکستان کے درمیان کشمیر کی کشیدہ صورت حال فیصلہ سازی کی فضا پر اثر انداز ہو رہی ہے۔

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے فرحان بخاری نے کہا کہ بین الاقوامی جوہری تحقیق کرنے والے اداروں کے مطابق دونوں ملکوں کے پاس ایک جیسے جوہری ہتھیار ہیں۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ اگر وہ استعمال ہوتے ہیں تو نہ صرف بھارت و پاکستان صحفہ ہستی سے مٹ جائیں گے بلکہ اس کے اثرات پوری دنیا پر مرتب ہوں گے۔

انہوں نے کہا کہ بین الاقوامی برادری کے لیے پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی باعثِ تشویش ہونی چاہیے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ بین الاقوامی برادری کو کوشش کرنی چاہیے کہ دونوں ملکوں کی قیادت کو بات چیت پر آمادہ کریں اور ماضی میں جنگ کا باعث بننے والے مسائل کو حل کروانے میں کردار ادا کریں۔

XS
SM
MD
LG