رسائی کے لنکس

نواز شریف کا نام ای سی ایل سے نکالنے کی مشروط منظوری


مسلم لیگ ن کے قائدین نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ نواز شریف کو علاج کے لیے بیرون ملک بھیجنے میں ہر لمحے کی تاخیر نقصان دہ ثابت ہو سکتی ہے۔ (فائل فوٹو)
مسلم لیگ ن کے قائدین نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ نواز شریف کو علاج کے لیے بیرون ملک بھیجنے میں ہر لمحے کی تاخیر نقصان دہ ثابت ہو سکتی ہے۔ (فائل فوٹو)

وزیر اعظم پاکستان کی معاون خصوصی برائے اطلاعات و نشریات فردوس عاشق اعوان کا کہنا ہے کہ حکومت نے نواز شریف کو علاج کے لیے بیرون جانے کی اجازت دینے کا اصولی فیصلہ کر لیا ہے۔ البتہ نواز شریف کو علاج کے بعد وطن واپس آنے کے لیے ضمانت دینا ہو گی۔

وفاقی کابینہ کے اجلاس بعد ذرائع ابلاغ کو بریفنگ دیتے ہوئے فردوس عاشق اعوان کا کہنا تھا کہ کابینہ کے زیادہ تر ارکان نے نواز شریف کو بیرون ملک علاج کی اجازت دینے کی حمایت کی۔ تاہم بعض وزراء نے اس تجویز کی مخالف کی۔ فردوس عاشق اعوان نے بتایا کہ میڈیکل بورڈ کے 14 اراکین کی رپورٹ کابینہ کو پیش کی گئی۔

پاکستان کے نجی نیوز چینل 'جیو' کے مطابق نواز شریف کو بیرون ملک جانے کے لیے 'شورٹی بانڈ' جمع کرانے ہوں گے۔ اس کے علاوہ نواز شریف کو یہ بھی ضمانت دینا ہو گی کہ وہ علاج کے بعد وطن واپس آئیں گے۔

وزیرِ اعظم عمران خان کی کابینہ کی ذیلی کمیٹی کا اجلاس وفاقی وزیر قانون فروغ نسیم کی زیر صدارت منگل کو ہوا جس کے دوران نواز شریف کی میڈیکل رپورٹس کا جائزہ لیا گیا۔

اجلاس میں نواز شریف کے ذاتی معالج ڈاکٹر عدنان اور مسلم لیگ (ن) کے ڈپٹی سیکریٹری جنرل عطا تارڑ سمیت نیب کے نمائندے اور وزیرِ اعظم کے معاون خصوصی برائے احتساب بیرسٹر شہزاد اکبر بھی شریک تھے۔

کابینہ کی ذیلی کمیٹی اپنی سفارشات کابینہ کو فراہم کرے گی جس کے بعد وزیرِ اعظم عمران خان حتمی فیصلہ کریں گے۔

طبی ماہرین اور مسلم لیگ (ن) کے قائدین نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ نواز شریف کو علاج کے لیے بیرون ملک بھیجنے میں ہر لمحے کی تاخیر نقصان دہ ثابت ہو سکتی ہے۔

مسلم لیگ (ن) کی ترجمان مریم اورنگزیب کا کہنا ہے کہ نواز شریف کو بیرون ملک لے جانے کے لیے ایئر ایمبولینس بدھ کو لاہور پہنچے گی اور اُنہیں طبی طور پر سفر کے لیے آج سے پھر تیار کرنا شروع کریں گے۔

العزیزیہ اسٹیل ملز ریفرنس میں سزا یافتہ سابق وزیرِ اعظم نواز شریف کی سات سال قید کی سزا اسلام آباد ہائی کورٹ نے طبی بنیادوں پر آٹھ ہفتوں کے لیے معطل کی ہے۔

عدالت نے انہیں اپنی مرضی کا علاج کرانے کی اجازت دے رکھی ہے اور وہ لندن سے علاج کرانے کے خواہش مند ہیں جب کہ ان کے میڈیکل بورڈ نے بھی تجویز کیا ہے کہ انہیں بیرون ملک علاج کے لیے بھیجا جائے۔

ای سی ایل ہے کیا؟

ایگزٹ کنٹرول لسٹ جسے عرف عام میں ای سی ایل کہا جاتا ہے، ایک ایسی فہرست ہے جس میں ان افراد کا نام ڈالا جاتا ہے جنہیں کسی جرم یا الزام کے سبب ملک سے باہر جانے سے روکا جانا مقصود ہو۔

ای سی ایل کا قانون ایگزٹ فرام پاکستان کنٹرول آرڈیننس 1981 میں منظور کیا گیا تھا جس کی کوئی واضح پالیسی نہیں تھی۔ لیکن گزشتہ دور حکومت میں وزیرِ داخلہ چوہدری نثار نے اس کی پالیسی تشکیل دی اور 2018 میں سینیٹ کی قائمہ کمیٹی داخلہ نے ای سی ایل ترمیمی بل کی منظوری دی۔

کسی شخص کا ای سی ایل میں نام شامل کرنے کے لیے تین رکنی کمیٹی بنائی جاتی ہے جو وزیرِ داخلہ، وزیرِ قانون اور وزیرِ خزانہ پر مشتمل ہوتی ہے۔ یہ کمیٹی اپنی سفارشات وفاقی کابینہ کو بھیجتی ہے۔ کابینہ کی منظوری کے بعد ایگزٹ فرام پاکستان کنٹرول آرڈیننس 1981 کے تحت ایسے افراد کا نام ای سی ایل میں شامل کر دیا جاتا ہے جو کسی جرم میں ملوث ہوں یا ان پر صرف الزام ہو۔

ای سی ایل کے لیے نام کون بھیجتا ہے؟

قانون کے مطابق مقدمات اور کرپشن میں ملوث کسی بھی شخص اور دہشت گرد کا نام، نفاذ قانون اور انٹیلی جینس اداروں کی تحریری سفارش اور عدالتی حکم پر اس فہرست میں شامل کیا جا سکتا ہے۔

اس قانون میں اگرچہ یہ تو بتایا گیا ہے کہ کون سے ادارے ای سی ایل میں نام شامل کرنے کی سفارش کر سکتے ہیں لیکن اس فہرست میں سے نام نکالنے کا اختیار صرف سیکرٹری داخلہ اور وفاقی وزیرِ داخلہ کو دیا گیا ہے۔ اس حوالے سے قانون میں کئی سقم بھی موجود ہیں۔

نام نکلے گا کیسے؟

پاکستان کے موجودہ حالات میں یہ سوال سب سے اہم ہے کہ ای سی ایل سے نام نکلے گا کیسے؟ تین بار وزارت عظمیٰ کے منصب پر براجمان ہونے والے نواز شریف علاج کی غرض سے باہر جانا چاہتے ہیں لیکن پانچ دن سے ای سی ایل سے نام نکالنے کی فائل وزیرِ اعظم، وزارتِ داخلہ، نیب، میڈیکل بورڈ اور پھر دوبارہ انہی حکام کے درمیان گھوم رہی ہے لیکن ہر کوئی کلی ذمہ داری قبول کرنے سے اجتناب کر رہا ہے۔

ماضی میں کسی شخص کا نام ای سی ایل میں شامل ہونے کے بعد وہ عمومی طور پر ہمیشہ کے لیے بیرون ملک جانے سے محروم ہو جاتا تھا کیونکہ نام نکالنے کا اختیار وفاقی وزیرِ داخلہ اور سیکرٹری داخلہ کے پاس تھا اور ان تک رسائی بہت مشکل تھی۔

سابق وفاقی وزیرِ داخلہ چوہدری نثار علی خان کے دور میں وزارتِ داخلہ کے ایک افسر نے اپنے ایک عزیز کے خانگی جھگڑے میں طلاق ہونے پر ان کی بیوی کا نام ای سی ایل میں ڈلوا دیا تھا۔ جب وہ خاتون ملک سے باہر جانے لگیں تو انہیں ایئر پورٹ پر گرفتار کر لیا گیا۔

تحقیقات ہونے پر پتا چلا کہ خاتون کے خلاف سرے سے کوئی مقدمہ ہی نہیں ہے۔ اس کے بعد چوہدری نثار نے ای سی ایل پالیسی بنائی جس میں نام صرف چند اداروں کی سفارش پر شامل کیے جائیں اور اگر سفارش کرنے والے ادارے مقررہ مدت تک ای سی ایل کمیٹی کو مکمل شواہد پیش نہ کریں تو متعلہ شخص کا نام خود بخود ای سی ایل سے خارج ہو جائے۔

چوہدری نثار کے دور میں ہزاروں نام اس فہرست سے خارج کیے گئے، جن میں ایسے افراد بھی شامل تھے جو یا تو وفات پا چکے تھے یا انہیں علم ہی نہیں تھا کہ ان کے بیرون ملک جانے پر پابندی عائد ہے۔

سپریم کورٹ نے وفاقی حکومت کے ایک کیس کی سماعت کے دوران یہ تشریح کی کہ وفاقی حکومت کا مطلب صرف وزیراعظم نہیں بلکہ کابینہ ہے جس کے بعد ای سی ایل سے متعلق فیصلہ کیا گیا کہ کسی شخص کا نام ای سی ایل سے نکالنے کے لیے وفاقی کابینہ کی منظوری لی جائے گی۔

لیکن چونکہ کابینہ براہ راست کسی بھی معاملے کی چھان بین نہیں کر سکتی، اس لیے وزارت داخلہ میں ایڈیشنل سیکرٹری کی سربراہی میں وزارت داخلہ کے افسران پر مشتمل ایک کمیٹی تشکیل دی گئی ہے جو کسی بھی شخص کا نام ای سی ایل میں شامل کرنے یا نکالنے کے لیے اپنی سمری کابینہ کو بھیجتی ہے۔

نوازشریف کیس میں کیا ہوا؟

نواز شریف کے معاملے میں ان کی صحت سے متعلق تشویشناک اطلاعات کے بعد حکومت نے فوری طور پر انہیں بیرون ملک جانے کی اجازت دینے کا فیصلہ کر لیا تھا لیکن سابق وزیر اعظم کی صحت فوری طور پر سفر کرنے کے قابل نہیں تھی۔ ان کی حالت سفر کے قابل بنانے کے لیے ماہر ڈاکٹروں کی ٹیم کی خدمات حاصل کی گئیں کیونکہ فضائی سفر میں پلیٹ لیٹس کی کمی شدید نوعیت کی پیچیدگیاں پیدا کر سکتی ہے۔

8 نومبر کو شہباز شریف نے نواز شریف کا نام ای سی ایل سے نکالنے کے لیے وفاقی حکومت کو باضابطہ درخواست دی۔ اس پر پیش رفت جاری تھی کہ بعض ذرایع کے مطابق اس موقع پر شہباز شریف کے صاحبزادے سلمان شہباز کی ایک ٹوئٹ نے کام خراب کر دیا جس میں کہا گیا تھا کہ “خدا کے فضل سے شہباز شریف اپنے بھائی اور لیڈر کو وہاں سے نکال گیا جہاں سے ’’سلیکٹڈ‘‘ نے ٹی وی اور اے سی اتارنا تھا”۔

اسی دوران مسلم لیگ ن کے بعض قائدین کی طرف سے بھی ایسے بیانات آئے جو حکومت کے لیے تحقیر آمیز اور اپنے فاتح ہونے کا تاثر دے رہے تھے جس پر حکومتی عہدے داروں نے یہ فیصلہ کیا کہ ای سی ایل سے نواز شریف کا نام آسانی سے نہ نکالا جائے اور اس سلسلے میں تمام پروسیجر مکمل کیا جائے۔ ذرائع کے مطابق اسی وجہ سے اب یہ کیس پانچ روز کی تاخیر کے بعد وفاقی کابینہ میں پیش کیا جا رہا ہے اور اس عرصے کے دوران ان کی فائل کو مختلف محکموں کے درمیان زیر گردش رکھا گیا ہے۔

XS
SM
MD
LG