رسائی کے لنکس

پاکستانی فوج اور آئی ایس آئی اپنے ملک کو نقصان پہنچا رہے ہیں: امریکی تجزیہ کار


یونائیٹڈ انسٹی ٹیوٹ آف پیس، واشنگٹن کی عمارت
یونائیٹڈ انسٹی ٹیوٹ آف پیس، واشنگٹن کی عمارت

واشنگٹن میں قائم ایک تحقیقی ادارے ’سینٹر فار اسٹریٹیجک اینڈ انٹرنیشنل سٹدی‘ سے وابستہ تجزیہ کار ڈیوڈ سڈنی نے کہا ہے کہ پاکستانی فوج اور انٹیلی جینس اداروں (آئی ایس آئی) نے اپنے ملک میں گذشتہ 30 برسوں سے سیکیورٹی کی پالیسی کو اپنے کنٹرول میں رکھا ہوا ہے۔

واشنگٹن کے ایک تھنک ٹینک ’یونائیٹڈ سٹیٹس انسٹی ٹیوٹ آف پیس‘ میں پاکستان اور امریکہ کے تعلقات کے مستقبل پر منعقدہ ایک مذاکرے میں گفتگو کرتے ہوئے ڈیوڈ سڈنی کا کہنا تھا کہ ’’پاکستانی فوج اور ملکی حکام اپنے ہی لوگوں پر ظلم کرتے ہیں۔ صحافیوں کو پکڑتے ہیں اور انہیں قتل کرتے ہیں۔ اور ان کی کوشش ہوتی ہے کہ لوگوں کے ذہنوں کو اسی انداز میں ڈھالا جائے جیسا وہ چاہتے ہیں‘‘۔

تاہم، ڈیوڈ سڈنی کا یہ بھی کہنا تھا کہ وہ ’’امریکی حکومت کی رائے سے اتفاق نہیں کرتے کہ سارے پاکستانی ایک جیسے ہیں۔ دو سو ملین لوگ ایک جیسا نہیں سوچتے۔ میں بہت سے لوگوں کو جانتا ہوں جو ہمسایہ ملکوں سے اچھی تعلقات رکھنے کے حامی ہیں۔ وہ امن چاہتے ہیں۔ اس لئے، سب کو ایک ہی نظر سے نہیں دیکھنا چاہیے‘‘۔

اس مکالمے میں شریک افغانستان اور پاکستان کے لئے امریکہ کے سابق نمائندہ خصوصی رچرڈ اولسن کا کہنا تھا کہ پاکستان کے ساتھ سخت رویہ اختیار کرنا مشکل ہوگا، کیونکہ پاکستان اور امریکہ مختلف شعبوں میں کام کر رہے ہیں اور یہ مشکل ہوگا کہ پاک امریکہ تعلقات مکمل طور پر ختم کئے جائیں۔

امریکہ نے حال ہی پاکستان کے بارے میں سخت موقف اپنایا ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی افغان حکمت عملی میں یہ نکات شامل ہیں کہ افغانستان میں مزید فوجی بھیجے جائیں گے اور پاکستان میں دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہوں کے مسئلے پر چپ نہیں رہیں گے۔

اس نئی امریکی حکمت عملی پر پاکستان کے حکام، انٹیلی جینس اور فوج ہے۔

مکالمے میں شریک جنوبی ایشیا امور کے ماہر معید یوسف نے کہا کہ وہ پچھلے دنوں تین ہفتوں تک پاکستان میں رہے اور انہیں معلوم ہوا کہ لوگ پاک امریکہ تعلقات کے مستقبل کے بارے میں فکر مند ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ’’مجھے لگتا ہے کہ پاکستان میں لوگوں کوپتا ہے کہ صدر ٹرمپ سنجیدہ ہیں اور یہ کہ نئی امریکی حکومت پچھلی حکومتوں کی طرح نہیں ہے۔ پاکستان کے عوام اس بارے میں فکر مند ہیں کہ آگے کیا ہو گا‘‘۔

مکالمے کےشرکاء نے افغانستان میں امن کے لئے مذاکرات کی اہمیت پر زور دیا اور کہا کہ افغانستان کے مسئلے کا حل صرف فوج کے ذریعے ممکن نہیں۔

XS
SM
MD
LG