رسائی کے لنکس

حکومتوں اور محکموں کی چپقلش نے کراچی کو بے حال کر دیا ہے: شاہی سید


شاہی سید، فائل فوٹو
شاہی سید، فائل فوٹو

کراچی کا شمار دنیا کے گنجان آباد شہروں میں کیا جاتا ہے۔ لیکن یہ بدترین رہائش والے شہروں کی فہرست میں بھی شامل ہے۔ عروس البلاد اور روشنیوں کا شہر کہلانے والے کراچی کو کس کی نظر لگی ہے؟ کون ذمے دار ہے؟ کون کام نہیں کر رہا؟ وائس آف امریکہ یہ جاننے کے لیے آئندہ چند روز اسٹیک ہولڈرز کے انٹرویوز کرے گا۔ پہلا انٹرویو اے این پی سندھ کے صدر سینیٹر شاہی سید کا پیش کیا جارہا ہے۔

سوال:

آپ اکثر کراچی کے لیے آواز اٹھاتے ہیں اور اے این پی کو کراچی کے اسٹیک ہولڈرز میں شامل کرتے ہیں۔ پھر کیا وجہ ہے کہ کراچی کا اتنا برا حال ہے لیکن اے این پی لاتعلق بنی ہوئی ہے؟

شاہی سید:

آپ کی بات صحیح ہے کہ ہم نے کچھ خاموشی اختیار کی ہوئی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ گزشتہ سال جو عام انتخابات ہوئے، ہم ان سے مطمئن نہیں تھے۔ ہمارے ساتھ دھاندلی ہوئی۔ ایک سلیکٹڈ آدمی کو لا کر بٹھا دیا گیا۔ شام چھ بجے تک سب کچھ ٹھیک تھا۔ پھر نتائج بدل دیے گئے۔ اس کے بعد ہم نے کہا کہ جس نے یہ کام کیا، اب وہ جانے اور اس کا کام جانے۔ شاید وہ قابل ہوں گے، ہم نالائق ہوں گے، نا اہل ہوں گے۔ وہ اہل ہوں گے تو کراچی کو سنبھال لیں گے۔

دوسری بات یہ ہے کہ جب ہم پارلیمان میں نہیں ہوتے تو کوئی اہمیت نہیں دیتا۔ جب ہمارے دو ارکان سندھ اسمبلی تھے تو وزیراعلیٰ کم از کم افطار پارٹی میں بلا لیتے تھے۔ اب ہمارا نہ کوئی ایم پی اے، نہ ایم این اے ہے، تو اب نہ دعوت ملتی ہے اور نہ ہم خواہ مخواہ کہتے ہیں کہ ہمیں شمار کریں۔ ہم خاموشی سے تماشا دیکھ رہے ہیں۔

اس میں کوئی دو رائے نہیں ہے کہ کراچی پاکستان کی ریڑھ کی ہڈی ہے۔ معاشی حب ہے۔ دینے والا شہر ہے۔ لیکن اسے لاوارث بنادیا گیا ہے۔ اگر یہاں آزادانہ، منصفانہ اور شفاف انتخابات نہیں ہوئے تو یہ بھی کراچی کے ساتھ ناانصافی ہے۔ جیسے کچرا نہ اٹھا کر ناانصافی کی جا رہی ہے۔ اسی طرح یہ بھی ناانصافی ہے کہ حق دار لوگوں کے بجائے یہ شہر ان کے حوالے کر دیا گیا جنھیں سیاست کی اے بی سی کا علم نہیں ہے۔ جس طرح کی آج کل سیاست کی جا رہی ہے، میرا دل بولنے کو نہیں چاہتا۔ گزشتہ کئی ماہ کے دوران میں نے چند ایک ہی صحافیوں سے بات کی ہو گی۔ اس کی وجہ یہ کہ صرف مفادات کی سیاست کی جا رہی ہے۔ کراچی کے عوام کے لیے کچھ نہیں کیا جا رہا۔

سوال:

لیکن سیاست کا صرف حکومت یا پارلیمان کی نشست سے تعلق نہیں ہوتا۔ سیاست عوام سے رشتہ برقرار رکھنے کے لیے کی جاتی ہے۔ کراچی میں آپ کے سینکڑوں ہزاروں کارکن ہوں گے۔ اگر حکومت یا کوئی اور جماعت کچرا نہیں اٹھا رہی تو آپ شہریوں کا دل جیتنے کے لیے صفائی مہم چلا سکتے ہیں۔ لیکن ایسا لگتا ہے کہ دوسروں کی طرح آپ کو بھی دلچسپی نہیں؟

شاہی سید:

آپ کی بات میں درست مان لیتا ہوں۔ ہمیں کرنا چاہیے۔ لیکن نہ کرنے کی وجوہات یہ ہیں کہ اصل خرابی کی طرف ہم جا نہیں رہے۔ وفاقی حکومت کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ وہ فنڈز دینے کا اعلان کرتی ہے لیکن پیسہ نہیں دیتی۔ اسی طرح سندھ حکومت کی آپس کی لڑائی ہے۔ بلدیاتی حکومت اور صوبائی حکومت میں بھی جنگ چل رہی ہے۔ اصل معاملہ یہ ہے کہ جتنا پیسہ ملتا ہے، وہ بہت ہے بشرطیکہ کرپشن ختم ہو جائے۔ جو کام کرنے کی ضرورت ہے، وہ میرے بس میں نہیں ہیں۔ میرے پاس وہ اختیار نہیں ہے کہ میں وزیراعلیٰ سے کہوں کہ اپنے بندے فعال کرو۔ محکمہ بلدیات میں کتنے لوگ ہیں۔ یہاں بہت سے لوگ ہیں جو غیر مسلموں کی جگہ پر بھرتی ہو گئے ہیں کیونکہ ملازمتیں فروخت کی گئی ہیں۔ اب وہ لوگ کام پر نہیں آتے اور جھاڑو نہیں پکڑتے۔ ایسے بھی ملازم ہیں جن کا دو چار سال پہلے انتقال ہو گیا لیکن ان کی تنخواہیں جاری ہیں۔ جو لوگ کام کے لیے رکھے گئے ہیں، وہ حاضر نہیں ہوں گے تو کام کیسے ہو گا؟

سوال:

کراچی کا مسئلہ بدانتظامی ہے یا پیسوں کی کمی ہے یا غیر ملکی سازش ہے یا اسٹیبلشمنٹ اسے پھلتا پھولتا نہیں دیکھنا چاہتی۔ اصل بات کیا ہے؟

شاہی سید:

میرا خیال ہے کہ پیسوں کی کمی ہو گی لیکن یہ مسئلہ اتنا بڑا نہیں ہے۔ خرابیوں میں غیر ملکی ہاتھ بھی ہو سکتا ہے لیکن ایسا بھی نہیں کہ سارا کام انھوں نے خراب کر دیا۔ اصل میں لوگ خود کام نہیں کرنا چاہتے۔ وفاقی، صوبائی، شہری حکومت، ہر محکمہ، ہر ملازم اپنا کام ایمان داری سے کرے تو کراچی ویسے ہی رشنیوں کا شہر بن جائے گا جیسے پہلے تھا۔ کراچی میں کوئی کمی نہیں ہے۔ یہ کمانے والا شہر ہے۔ یہ پورے ملک کو کھلانے والا شہر ہے۔ لیکن بدقسمتی سے بدانتظامی بہت زیادہ ہے۔ ہر کام میں سیاست ہے۔ یہاں تک شکایات ہیں کہ لوگ کچرے کی بوریاں خود پائپ لائنوں میں ڈال دیتے ہیں۔ اگر یہ سچ ہے تو شہریوں کے ساتھ ظلم ہو رہا ہے۔ کے ایم سی ڈی ایم سی کیا کر رہے ہیں؟ ہر یو سی کا چیئرمین اپنے اپنے علاقے کو صاف کرے تو کراچی صاف ہو جائے گا۔

سوال:

وفاقی وزیر قانون فروغ نسیم نے حال میں ایک تجویز پیش کی کہ کراچی کو سندھ حکومت سے لے کر وفاق کے حوالے کر دینا چاہیے۔ اس پر کافی اعتراضات ہوئے اور انھوں نے بعد میں کہا کہ وہ ان کی ذاتی رائے تھی۔ آپ کا اس تجویز پر کیا تبصرہ ہے؟

شاہی سید:

ہم یہ چاہتے ہیں کہ ملک کے ڈھانچے کو نہ چھیڑا جائے۔ ایسی کوئی بات نہ کی جائے جس سے اختلافات پیدا ہوں، قومیتیوں پر یا مسلکوں پر بات جائے جو ملک کی بربادی کا باعث بنے۔ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ہم کام کرنے کے قابل ہیں۔ شہر پہلے بھی صاف ہوا ہے، اور بھی کام ہوئے ہیں۔ اٹھارہویں ترمیم کو چھیڑنے سے یا لسانی صوبہ بنانے کی بات سے تنازعات پیدا ہوں گے۔ اس طرف نہیں جانا چاہیے۔

سوال:

کراچی اتنا بڑا شہر ہے کہ دنیا کے کئی ملکوں سے بھی بڑا ہے۔ کچھ لوگ اسے صوبہ بنانے کا مطالبہ کرتے ہیں؟ کچھ لوگ اس مطالبے کے سخت خلاف ہیں۔ آپ کیا بہتر سمجھتے ہیں؟

شاہی سید:

پاکستان کا آئین اور قانون جو کہتا ہے، اس پر عمل کرنا چاہیے۔ لڑائی جھگڑے اور فسادات کی بجائے آئینی طریقے کو استعمال کیا جائے۔ صوبہ بن جائے تو کسی کو اعتراض نہیں کرنا چاہیے۔ ورنہ تنازعہ کھڑا کریں گے تو پھر سرائیکی صوبہ، ہزارہ صوبہ سب کی بات شروع ہو جائے گی۔ مجھے یہ بتائیں کہ بنگلادیش کے پاس ایٹم بم نہیں ہے، وہ پھر بھی ترقی کر رہا ہے۔ جو ملک ہمارے بعد آزاد ہوئے ہیں، جیسے ملائیشیا، وہ آگے جا رہے ہیں۔ ہم ایٹمی قوت ہونے کے باوجود پیچھے کی طرف کیوں جا رہے ہیں؟ پسپائی کیوں ہو رہی ہے؟ صرف اور صرف اچھی نیت کی کمی ہے۔

سوال:

کراچی میں لاکھوں پشتون آباد ہیں۔ شاید پشاور، مردان اور کابل سے بھی زیادہ۔ پھر کیا وجہ ہے کہ اے این پی یہاں سے نشستیں نہیں جیت پاتی؟

شاہی سید:

میں یاد دلانا چاہتا ہوں کہ گزشتہ الیکشن سے پہلے میں نے کہا تھا کہ اس بار کامیاب نہیں ہوا تو آئندہ سیاست نہیں کروں گا۔ لیکن جب نتائج دیکھے تو ان میں ہیر پھیر تھی۔ میرے حلقے کا دس فیصد نتیجہ آیا تو میرے ووٹ سات ہزار تھے۔ مکمل نتیجے میں ستر ہزار ووٹ ہونے چاہیے تھیں۔ لیکن مکمل نتیجہ آیا تو سات ہزار ووٹ بھی کم ہو کر ساڑھے تین ہزار رہ گئے تھے۔ میں اس نتیجے کو کیسے تسلیم کروں؟ آزادانہ، منصفانہ اور شفاف انتخابات نہیں ہوتے۔ یہ وجوہات ہیں کہ صوبائی اسمبلی میں ہماری نمائندگی نہیں ہے۔ کچھ قومی ادارے ایسے ہیں جو ناراض رہتے ہیں، ہماری صاف گوئی سے انھیں پریشانی ہوتی ہے اور وہ چاہتے ہیں کہ ہم اسمبلی میں نہ جائیں۔

سوال:

قومی، صوبائی اور شہری حکومتیں اگر کراچی کی بہتری کے لیے کوئی مہم چلائیں تو کیا آپ ان سے تعاون کریں گے؟

شاہی سید:

کراچی کے امن کے لیے میں نے پیشکش کی تھی کہ آپریشن کا آغاز میرے گھر سے کریں۔ کراچی کی بہتری اور خوشحالی کے لیے ہم سے جو تعاون چاہیے، چاہے ہمارے مخالفین کی حکومت کیوں نہ ہو، ہم ان کا ساتھ دیں گے۔ ہمیں کراچی خوشحال چاہیے۔ کراچی میں امن، کراچی میں صفائی، کراچی میں روزگار چاہیے۔ کراچی میں اچھے اسکول اور اچھے اسپتال چاہییں۔ جو بھی اس کے لیے قدم بڑھائے گا، ہم اس کا بھرپور ساتھ دیں گے۔

XS
SM
MD
LG