رسائی کے لنکس

پاکستان: کرونا کی موجودگی میں پولیو وائرس کی نئی لہر کا خدشہ


پاکستان میں کرونا وائرس کے پھیلاؤ کے پیشِ نظر پولیو مہم کی معطلی سے لاکھوں بچے پوليو کے قطرے پينے سے محروم ہو چکے ہيں۔ (فائل فوٹو)
پاکستان میں کرونا وائرس کے پھیلاؤ کے پیشِ نظر پولیو مہم کی معطلی سے لاکھوں بچے پوليو کے قطرے پينے سے محروم ہو چکے ہيں۔ (فائل فوٹو)

پاکستان میں کرونا وائرس کے پھیلاؤ کی وجہ سے ملک بھر ميں پوليو سے بچاؤ کے قطرے پلانے کی مہم رواں برس مارچ کے مہينے سے معطل ہے۔ ماہرين نے خدشہ ظاہر کيا ہے پولیو مہم کی معطلی سے ملک بھر ميں پوليو اور ديگر انتہائی موذی امراض کی ايک نئی لہر پيدا ہو سکتی ہے۔

اس وقت پوری دنيا ميں پوليو کيسز صرف پاکستان، افغانستان اور نائجيريا ميں ہيں۔ رواں برس پاکستان میں پولیو کے 51 کیسز رپورٹ ہوئے ہیں جب کہ گزشتہ برس ملک بھر میں 147 کيسز رپورٹ ہوئے تھے۔

پاکستان میں کرونا وائرس کے پھیلاؤ کے پیشِ نظر پولیو مہم کی معطلی سے لاکھوں بچے پوليو کے قطرے پينے سے محروم ہو چکے ہيں۔ خاص طور پر صوبہ خیبر پختونخوا پولیو وائرس سے سب سے زیادہ متاثر ہے۔

صوبے میں پوليو پروگرام کے کوآرڈيںيٹر اور ايڈيشنل سيکريٹری ہیلتھ ڈاکٹر عبدالباسط نے وائس آف امریکہ کو بتايا ہے کہ صوبے ميں کرونا وائرس کے باعث پہلی ہلاکت ضلع مردان ميں واقع ہوئی جس کے بعد پوليو مہم کو معطل کر ديا گيا تھا جو تا حال معطل ہے۔

ان کے مطابق پوليو مہم کی معطلی کے بعد سے بڑے شہروں خصوصاً پشاور ميں پوليو ورکرز کرونا وائرس کے سلسلے ميں آگاہی مہم ميں شريک ہيں۔ ان کے فرائض ميں لوگوں کو سماجی دوری، ماسک کی اہميت، بيرونِ ممالک سے آئے ہوئے افراد کا ڈيٹا اکٹھا کرنا بھی شامل ہے۔

ڈاکٹر عبدالباسط کے بقول پوليو مہم کی معطلی کی وجہ سے اس کے اثرات اب آہستہ آہستہ سامنے آ رہے ہيں۔ بنوں میں پولیو ورکرز کی سخت محنت کے باوجود وہاں ایک کیس رپورٹ ہوا ہے جو تشويش ناک ہے۔

انہوں نے بتایا کہ پوليو مہم کے نہ ہونے سے صرف صوبہ خيبر پختونخوا ميں 80 لاکھ سے زائد بچے پوليو کے قطرے پينے سے محروم رہے ہیں۔ تاہم وہ پُر اميد ہيں کہ جولائی کے مہينے ميں ممکنہ طور پر ہونے والی پوليو مہم ميں تمام بچوں تک رسائی حاصل ہو جائے گی۔

انہوں نے مزيد بتايا کہ پاکستان ميں وائلڈ پوليو وائرس پر تقريباً قابو پا ليا گيا ہے ليکن پی ٹو پوليو وائرس دوبارہ سے بعض علاقوں ميں رونما ہو رہا ہے۔

ياد رہے کہ دنيا ميں پوليو کی تين قسميں ہيں۔ پی ون، پی ٹو اور پی تھری۔ حکومت پاکستان کے مطابق پی ٹو قسم کا ملک بھر ميں 1999 ميں مکمل خاتمہ ہو گیا تھا۔

پاکستان ميں پی تھری کا آخری کيس اپريل 2012 ميں خيبر ايجنسی سے سامنے آيا تھا جب کہ 2013 کے بعد سے پاکستان بھر ميں پی ٹو اور پی تھری ٹائپس ختم ہو گئی تھيں۔

حکومتِ پاکستان نے اپريل 2016 ميں پوليو ويکسين کو ٹرائويلنٹ سے بائی ويلنٹ ميں تبديل کيا تھا۔ ٹرائيويلنٹ ويکسين تينوں قسموں کے خلاف استعمال ميں لائی جاتی تھی جب کہ بائی ويلنٹ ويکسين پی ون اور پی تھری کے خلاف استعمال کی جاتی ہے۔

ڈاکٹر عبدالباسط کے مطابق پاکستان ميں پی ٹو وائرس گزشتہ سال گلگت بلتستان کے علاقوں ميں سامنے آيا تھا جس کے بعد ان علاقوں ميں پی ٹو وائرس کے خلاف مؤثر مہم چلاتے ہوئے پشاور، مالاکنڈ اور ہزارہ ڈويژن کو اس وائرس سے پاک کر ديا گيا تھا۔

اُن کے مطابق کرونا وائرس کی وجہ سے پولیو مہم کی معطلی کے بعد اب يہ وائرس صوبہ خيبر پختونخوا کے جنوبی اضلاع تک پھيل گيا ہے۔

پاکستان کی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ايس پی آر) کے مطابق گزشتہ ہفتے مائيکرو سافٹ کے بانی، بل گيٹس، اور آرمی چيف جنرل قمر جاويد باجوہ کے درميان ٹيلی فونک رابطہ ہوا تھا جس ميں پاکستان ميں انسدادِ پوليو مہم کے حوالے سے تبادلۂ خيال ہوا۔

آئی ايس پی آر کے مطابق ملک بھر ميں کرونا کے پھيلنے کے خطرے کے باوجود فوج حکومت کے ساتھ مل کر آئندہ چند ہفتوں ميں انسدادِ پوليو مہم شروع کرے گی۔

'پولیو مہم کے لیے احکامات ملے ہیں'

رانی تلا گزشتہ پانچ سال سے پشاور ميں پوليو پروگرام سے وابستہ ہيں۔ اُن کے مطابق لاک ڈاؤن کی وجہ سے اب ان کے کام ميں وہ تيزی نہيں ہے جو پہلے تھی تاہم اب انھيں احکامات موصول ہوئے ہيں کہ وہ اپنے علاقے ميں لوگوں کو پھر سے پوليو کے حوالے سے آگاہی مہم شروع کريں۔

وائس آف امريکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے بتايا کہ کرونا وبا کے پھيلنے سے قبل وہ علاقے کے عمائدين، علمائے کرام کے علاوہ ان خاندانوں سے ملتی تھيں جو اپنے بچوں کو پوليو کے قطرے مختلف وجوہات کی بنا پر پلانے سے انکاری تھے۔

تلا رانی کے مطابق ايريا سپروائزر کی حيثيت سے انہوں نے دوبارہ سے علاقے ميں لوگوں کے پاس محدود پيمانے پر جانا شروع کر ديا ہے کيوں کہ ان کے پاس کرونا سے بچاؤ کی مکمل کٹ نہيں ہے۔

ان کے بقول رواں برس فروری سے پوليو مہم معطل ہے اور کرونا وبا کے دوران لوگ پوليو کو بالکل بھول گئے ہيں۔

تلا رانی
تلا رانی

پوليو کيسز ميں اضافہ اور وائرس کے پھيلاؤ کے حوالے سے رانی تلا ڈاکٹر عبدالباسط سے اتفاق کرتی ہيں۔

انہوں نے بتايا کہ وہ سمجھتی ہيں کہ پوليو کيسز ميں اضافہ ممکن ہے کيوں کہ پاکستان ميں اب تک پوليو کا مکمل خاتمہ نہيں ہوا ہے اور پشاور کے پانی اور ماحول ميں وائرس اب بھی موجود ہے جس کی وجہ سے تمام بچوں کی قوت مدافعت اس مہلک وائرس کے خلاف پوری طرح سے بہتر نہيں ہوئی ہے۔

تلا رانی کے مطابق وہ بچے جن کی ويکسينيشن کا کورس مکمل نہيں ہوا ہے انہیں زیادہ خطرات لاحق ہیں۔

تلا رانی کو خدشہ ہے کہ اگر پوليو مہم مزيد معطل رہتی ہے تو کہيں اپريل 2019 ميں پوليو کے خلاف جعلی کارروائی والے حالات نہ پيدا ہو جائيں جس کے بعد نہ صرف پوليو مہم کو روکنا پڑا تھا بلکہ کيسز بھی زيادہ تعداد ميں سامنے آئے تھے۔

ياد رہے کہ اپريل 2019 ميں پشاور کے نواحی علاقے ماشوخيل ميں ایک جعلی ویڈیو جاری ہوئی تھی جس میں بچوں کو پولیو کے قطرے پینے کے بعد حالت غیر ہوتے دکھایا گیا تھا۔اس پروپيگنڈے کی وجہ سے ملک بھر ميں پوليو کی مہم رک گئی تھی۔

پاکستان میں 2012 سے اب تک پوليو ٹيموں پر حملوں ميں 70 سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہيں۔ جن ميں پوليو ورکرز کے علاوہ سيکیورٹی فورسز کے اہلکار اور عام شہری بھی شامل ہيں۔

پوليو کوآرڈينيٹر عبدالباسط کے مطابق چار ماہ سے مہم کی معطلی کی وجہ سے وہ سمجھتے ہيں کہ وائرس کئی علاقوں تک پھيل گيا ہو گا۔

انہوں نے مزید کہا کہ جولائی ميں ممکنہ طور پر شروع ہونے والی مہم میں تمام بچوں تک پولیو کی ٹیمیں پہنچیں گی۔

XS
SM
MD
LG