رسائی کے لنکس

بھارتی سپریم کورٹ کا کشمیر میں معمولات زندگی بحال کرنے کا حکم


سپریم کورٹ کے تین ججز پر مشتمل بینچ نے درخواستوں کی سماعت کی۔ بینچ میں چیف جسٹس رنجن گوگوئی کے علاوہ جسٹس ایس اے بویڈے اور جسٹس عبدالنذیر بھی شامل تھے — فائل فوٹو
سپریم کورٹ کے تین ججز پر مشتمل بینچ نے درخواستوں کی سماعت کی۔ بینچ میں چیف جسٹس رنجن گوگوئی کے علاوہ جسٹس ایس اے بویڈے اور جسٹس عبدالنذیر بھی شامل تھے — فائل فوٹو

بھارت کی سپریم کورٹ نے مرکزی حکومت سے کہا ہے کہ جموں و کشمیر میں معمولاتِ زندگی بحال کرنے کے لیے جلد اقدامات کیے جائیں۔

جموں و کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت کے خاتمے سے متعلق درخواستوں پر سماعت کرتے ہوئے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس رنجن گوگوئی نے مرکز سے کہا ہے کہ قومی سلامتی کو دیکھتے ہوئے ترجیحی بنیادوں پر وادی میں معمول کی زندگی بحال کی جائے۔

چیف جسٹس کا دوران سماعت مزید کہنا تھا کہ اگر ضرورت پڑی تو وہ خود جموں و کشمیر کا دورہ کریں گے۔

بھارت کے اخبار 'ٹائمز آف انڈیا' کے مطابق چیف جسٹس رنجن گوگوئی کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے درخواستوں کی سماعت کی۔ بینچ میں جسٹس ایس اے بویڈے اور جسٹس عبدالنذیر بھی شامل تھے۔

سماعت کے دوران بینچ نے کہا کہ چونکہ شٹ ڈاؤن جموں و کشمیر میں ہے۔ اس لیے اس معاملے کو جموں و کشمیر ہائی کورٹ خود بھی دیکھ سکتا ہے۔

سپریم کورٹ کے یہ ریمارکس اخبار 'کشمیر ٹائم' کی ایگزیکٹیو ایڈیٹر انورادھا بھاسین کی طرف سے دائر کردہ درخواست کی سماعت کے دوران سامنے آئے۔

درخواست میں جموں و کشمیر میں ذرائع مواصلات پر عائد پابندیاں اٹھانے کی استدعا کی گئی ہے۔

نئی دہلی میں وائس آف امریکہ کے نمائندے سہیل انجم کے مطابق انورادھا بھاسین نے درخواست میں کہا تھا کہ وہ سری نگر سے اپنا اخبار نکال نہیں پا رہی ہیں۔ انتظامیہ کو حالات معمول پر لانے کی ہدایت کی جائے۔

بھارت کے اخبار 'ٹائمز آف انڈیا' کی رپورٹ کے مطابق سرکاری وکیل کے کے وینو گوپال نے عدالت کو مطلع کیا کہ کشمیر میں ایک بھی گولی نہیں چلی ہے۔

کے کے وینو گوپال کا دعویٰ تھا کہ وادی کے 88 فیصد پولیس اسٹیشنز کی حدود سے پابندیاں اٹھا لی گئی ہیں۔

سرکاری وکیل کا مزید کہنا تھا کہ کشمیر کے تمام اخبارات شائع ہو رہے ہیں جبکہ حکومت ان کی اشاعت میں تعاون کر رہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ سرکاری ٹی وی چینل 'دور درشن' اور دوسرے پرائیویٹ چینلز کے علاوہ ایف ایم نیٹ ورکس بھی جموں و کشمیر میں کام کر رہے ہیں۔

عدالت عظمیٰ نے سرکاری وکیل کو مرکزی حکومت کے اقدامات کو ایک حلف نامے پر تحریر کرکے عدالت میں جمع کروانے کا حکم دیا۔

فاروق عبداللہ کی حراست پر مرکز سے جواب طلب

بھارت کی سپریم کورٹ نے فاروق عبداللہ کو عدالت کے سامنے پیش کیے جانے سے متعلق دائر درخواست پر مرکز اور جموں و کشمیر انتظامیہ سے جواب طلب کر لیا ہے۔

جموں و کشمیر کے سابق وزیراعلیٰ فاروق عبداللہ پانچ اگست کو جموں و کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت منسوخ کیے جانے کے بعد سے زیر حراست ہیں۔

بھارتی نشریاتی ادارے 'این ڈی ٹی وی' کے مطابق فاروق عبداللہ کو پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت حراست میں لیا گیا ہے۔

رپورٹ کے مطابق پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت زیر حراست افراد کو دو سال تک حراست میں رکھا جا سکتا ہے۔

فاروق عبداللہ کی جماعت نیشنل کانفرنس نے جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت منسوخ کرنے کے بھارتی حکومت کے اقدام پر اعتراض کیا تھا۔

سابق وزیر اعلیٰ فاروق عبداللہ کی نظر بندی ختم کرنے کی درخواست اُن کے دوست اور تامل ناڈو کے رہنما وائیکو کی طرف سے دائر کی گئی ہے۔ تاکہ فاروق عبداللہ تامل ناڈو کے پہلے وزیراعلیٰ سی این اناڈورائی کی یوم پیدائش کے سلسلے میں ہونے والی تقریب میں شرکت کرسکیں۔

دفعہ 370 کے خاتمے کے بعد اب کیا ہوگا؟
please wait

No media source currently available

0:00 0:02:25 0:00

وائیکو کا سپریم کورٹ میں دائر کردہ درخواست میں مؤقف تھا کہ فاروق عبداللہ کو ان کے آئینی حقوق کی خلاف ورزی کرتے ہوئے غیر قانونی طور پر حراست میں رکھا گیا ہے۔

بھارت کی حکومت نے سپریم کورٹ میں دائر کردہ درخواست پر اعتراض کیا ہے کہ درخواست گزار وائیکو فاروق عبداللہ کے رشتے دار نہیں ہیں۔ فاروق عبداللہ کی رہائی کے لیے ان کی درخواست قانونی عمل کا غلط استعمال ہے۔

یاد رہے کہ جب چھ اگست کو 'نیشنل کانگریس پارٹی' کی رہنما سپریہ سلی نے فاروق عبداللہ کی پارلیمان میں عدم موجودگی کی نشاندہی کی تھی۔

وزیر داخلہ اور پی جے پی کے اہم رہنما امیت شاہ کا کہنا تھا کہ فاروق عبداللہ نہ زیر حراست ہیں اور نہ ہی انہیں گرفتار کیا گیا ہے۔

امیت شاہ نے دعویٰ کیا تھا کہ فاروق عبداللہ اپنی مرضی سے اپنے گھر میں موجود ہیں۔

جموں و کشمیر میں آرٹیکل 370 کی منسوخی کے خلاف احتجاج اور مظاہرے
please wait

No media source currently available

0:00 0:01:34 0:00

بھارتی اخبار 'ہندوستان ٹائمز' کے مطابق جب سپریم کورٹ کے چیف جسٹس رنجن گوگوئی نے مرکزی حکومت کے وکیل توشر مہتا سے پوچھا کہ کیا فاروق عبداللہ نظر بند ہیں۔ تو جواب میں توشر مہتا کا کہنا تھا کہ انہیں جموں و کشمیر کی انتظامیہ سے اس حوالے سے معلومات لینا ہوں گی۔

چیف جسٹس کی سربراہی میں تین ججز پر مشتمل بینچ نے دائر کردہ درخواستوں پر سماعت 30 ستمبر تک ملتوی کر دی ہے۔

یاد رہے کہ جموں و کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت ختم کیے جانے کے بعد سے فاروق عبداللہ اور محبوبہ مفتی سمیت تقریباً 400 کشمیری سیاستدان زیر حراست ہیں۔

رپورٹس کے مطابق جموں و کشمیر میں چھ ہفتے گزر جانے کے بعد بھی موبائل فون اور انٹرنیٹ سمیت دیگر سہولیات بند ہیں۔

وائس آف امریکہ کے نئی دہلی میں نمائندے سہیل انجم کی رپورٹ کے مطابق سپریم کورٹ نے کانگریس کے سینئر رہنما غلام نبی آزاد کو خطے کے دورے کی اجازت دینے کی درخواست کی بھی سماعت کی۔

غلام نبی آزاد نے عدالت عظمیٰ میں درخواست داخل کرکے شکایت کی تھی کہ انہیں حکومت کشمیر کے دورے کی اجازت نہیں دے رہی۔

درخواست کے مطابق انہوں نے تین بار کوشش کی جبکہ تینوں بار انہیں واپس کر دیا گیا ۔

کانگریس رہنما نے عدالت کو یہ یقین دہانی کروائی کہ دورے کے دوران سیاسی سرگرمیوں کی ان کی کوئی نیت نہیں ہے۔

انہوں نے یقین دہانی کرائی کہ وہ کشمیر کے دورے کے دوران عوام سے نہیں ملیں گے۔

عدالت نے جموں و کشمیر انتظامیہ کو احکامات جاری کیے کہ وہ قومی سلامتی کے امور کو ذہن میں رکھتے ہوئے خطے میں معمول کے حالات بحال کرے۔

علاوہ ازیں چیف جسٹس رنجن گوگوئی نے بھارتی کشمیر سے متعلق اس دعوے پر تشویش کا اظہار کیا کہ جموں و کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت ختم کیے جانے کے بعد پانچ اگست سے نافذ پابندیوں کی وجہ سے عوام ہائی کورٹ جانے سے قاصر ہیں۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ اگر ضرورت پڑی تو حالات کا جائزہ لینے کے لیے وہ خود جموں و کشمیر کا دورہ کریں گے۔

بھارتی سپریم کورٹ — فائل فوٹو
بھارتی سپریم کورٹ — فائل فوٹو

چیف جسٹس نے یہ تبصرہ ایک بچوں کے حقوق کرنے والی ایک کارکن اِناکشی گانگولی کی شکایت پر سماعت کرتے ہوئے کیا۔

گانگولی نے اپنی درخواست میں کہا تھا کہ جیل میں بچوں کا کیس ہائی کورٹ کی ایک کمیٹی میں دیکھا جا رہا ہے اور وہاں تک رسائی مشکل ہے۔

چیف جسٹس نے مذکورہ دعوے کو انتہائی سنگین معاملہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ وہ ذاتی طور پر جموں و کشمیر ہائی کورٹ کے چیف جسٹس سے بات کریں گے۔

چیف جسٹس نے درخواست گزار کے وکیل حذیفہ احمدی سے کہا کہ وہ اس معاملے پر ہائی کورٹ سے رجوع کریں۔

اس پر حذیفہ احمدی نے کہا کہ درخواست گزار کے لیے ہائی کورٹ تک پہنچنا مشکل ہے۔

اس پر عدالت نے اس معاملے کا سخت نوٹس لیتے ہوئے کہا کہ اس دعوے کی تحقیقات کی جائے گی۔ اگر یہ دعویٰ غلط پایا گیا تو اس کے سنگین نتائج ہوں گے۔

چیف جسٹس سپریم کورٹ نے جموں و کشمیر ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کو اس بارے میں رپورٹ جمع کروانے کی ہدایت کی۔

یہ بھی پڑھیے

XS
SM
MD
LG