رسائی کے لنکس

سندھ: جبراً مذہب کی تبدیلی کا الزام، مسیحی لڑکی کی عمر کے تعین کا حکم


لڑکی نے عدالت کو آگاہ کیا کہ اس نے مرضی سے اسلام قبول کیا ہے۔
لڑکی نے عدالت کو آگاہ کیا کہ اس نے مرضی سے اسلام قبول کیا ہے۔

سندھ ہائی کورٹ نے کراچی میں مبینہ جبری تبدیلیٔ مذہب اور کم عمری میں شادی کرنے والی مسیحی لڑکی آرزو کی عمر کے تعین کے لیے میڈیکل بورڈ تشکیل دینے کا حکم دے دیا ہے۔

ہائی کورٹ نے اس دوران آرزو کو والدین یا کہیں اور رکھنے کی بجائے سرکاری تحویل میں دارالامان میں رکھنے کا بھی حکم دیا ہے۔

سندھ ہائی کورٹ کے جسٹس کے کے آغا اور جسٹس امجد علی سہتو پر مشتمل دو رکنی بینچ نے جمعرات کو جب کیس کی سماعت شروع کی تو عدالتی حکم پر بازیاب کرائی گئی لڑکی کو عدالت میں پیش کیا گیا۔

عدالت کے استفسار پر آرزو نے بتایا کہ اس نے بغیر کسی زور زبردستی کے اپنی مرضی سے دینِ اسلام قبول کیا ہے اور اُس کی عمر 18 سال ہے۔ اس لیے وہ اپنی مرضی سے شادی کی بھی مجاز ہے۔

عدالت نے کہا کہ بینچ کے سامنے جو دستاویزات پیش کی گئی ہیں ان کے مطابق ان کی عمر کم ظاہر ہو رہی ہے، اس لیے عمر کے تعین کے لیے میڈیکل بورڈ بنے گا۔

عدالت نے لڑکی سے استفسار کیا کہ کیا آپ کو کسی نے اغوا کیا تھا؟

جس پر آرزو نے بتایا کہ اسے کسی نے اغوا نہیں کیا تھا اور نہ ہی کوئی زبردستی کی گئی۔ اسے اپنے شوہر سے الگ نہ کیا جائے۔

آرزو کے وکیل نے عدالت سے درخواست کی کہ ہمارا کیس صرف ایف آئی آر ختم کرنے کے لیے تھا۔ لڑکی کا بیان عدالتی ریکارڈ پر رکھا جائے کہ اسے کسی نے اغوا نہیں کیا۔

اس پر ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے اس کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ لڑکی کے بیان کو فی الحال عدالتی ریکارڈ کا حصہ نہ بنایا جائے۔

واضح رہے کہ آرزو نے سندھ ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی تھی کہ اس نے اپنی مرضی سے اسلام قبول کیا ہے اور 18 سال کی عمر کو پہنچنے پر اپنی مرضی سے شادی کی ہے۔ لیکن لڑکی کے والدین اور دیگر رشتہ دار انہیں آزادی کی زندگی جینے نہیں دے رہے۔ انہیں ہراساں کیا جا رہا ہے اور نیا مذہب چھوڑنے پر بھی مجبور کیا جا رہا ہے۔

تاہم عدالت نے مدعی کے وکیل کےدلائل پر کہا کہ اب معاملہ کچھ اور ہے۔ ہمیں لڑکی کی عمر کا تعین کرنا ہو گا۔ اگر لڑکی کی عمر کم ہوئی تو اس پر الگ قانون لاگو ہو گا۔ لیکن سب سے پہلے لڑکی کی عمر کا تعین کیا جائے گا باقی معاملات کو بعد میں دیکھا جائے گا۔

جسٹس کے کے آغا اور جسٹس امجد علی سہتو پر مشتمل دو رکنی بینچ نے اپنے حکم میں لڑکی کی عمر کے تعین کے لیے سیکرٹری داخلہ کو میڈیکل بورڈ تشکیل دینے کا حکم دیا۔

بینچ نے کہا کہ درخواست گزار کی عمر کا جلد سے جلد تعین کیا جائے اور آئندہ سماعت پر اس متعلق رپورٹ عدالت میں پیش کی جائے۔ جب کہ عمر کے تعین اور آئندہ سماعت تک لڑکی کو دارالامان ہی میں رکھا جائے گا۔

عدالت نے درخواست کی مزید سماعت نو نومبر تک ملتوی کر دی۔

سماعت کے بعد گفتگو کرتے ہوئے وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق شیریں مزاری کی جانب سے پیش ہونے والے وکیل بیرسٹر صلاح الدین احمد کا کہنا تھا کہ یہ ایک سنجیدہ انسانی حقوق کا معاملہ ہے جس کے اثرات نہ صرف اقلیتوں بلکہ تمام مذاہب کے ماننے والوں اور بیرونی دنیا میں بہتر امیج سے جڑا ہوا ہے۔

ان کے بقول یہی وجہ ہے کہ وفاقی وزارتِ انسانی حقوق نے اس معاملے میں فریق بننے اور عدالت کی معاونت کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

بیرسٹر صلاح الدین احمد کا کہنا تھا کہ ایسے کیسز کی سماعت کے لیے عدالت کو بھی بعض پروٹوکولز طے کرنے پڑیں گے۔ عدالت کو مدعی کی عمر کا تعین کرنے کی ضرورت ہے اور یہ دیکھنا ہو گا کہ کیا اس نے یہ کیس اپنی مرضی سے دائر کیا ہے یا دباؤ میں آ کر ایسا کیا ہے۔

ان کے مطابق دوران سماعت عدالت سے استدعا کی گئی کہ بچی کا بیان کمرۂ عدالت میں نہیں بلکہ چیمبر میں لے جا کر ریکارڈ کیا جائے۔ کیوں کہ ایسے کیسز بہت حساس ہوتے ہیں جن میں دباؤ میں آ کر بیان دینے کا عنصر موجود ہوتا ہے۔

بیرسٹر صلاح الدین احمدنے بتایا کہ نادرا حکام اس بات کی تصدیق کر چکے ہیں کہ عدالت میں نادرا فارم کی پیش کردہ دستاویزات بالکل درست ہیں، جس میں بچی کی عمر 18 سال سے کم ظاہر ہو رہی ہے۔ تاہم عدالت کا میڈیکل بورڈ تشکیل دینا اور اس کے تحت آسی فیکیشن ٹیسٹ سے عمر کا تعین مزید سہل ہو گا۔

کیس کا پس منظر

کراچی کی ریلوے کالونی کے رہائشی والدین کے مطابق ان کا تعلق مسیحی مذہب سے ہے اور ان کے پیش کردہ نیشنل ڈیٹا بیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی (نادرا) کے جاری کردہ کم عمر بچوں کے سرٹیفیکیٹ کے مطابق ان کی بیٹی کی تاریخ پیدائش 31 جولائی 2007 ہے جس کے تحت اس کی موجودہ عمر 13 سال 3 ماہ بنتی ہے۔

ان کا الزام ہے کہ ان کی سب سے چھوٹی بیٹی کو ان کے 44 سالہ پڑوسی نے 12 اکتوبر کو اغوا کیا۔ اس کا زبردستی مذہب تبدیل کرایا جس کے بعد کم عمری کے باوجود اس کی شادی کرا دی گئی۔ اس طرح اُن کے مطابق یہ کیس اغوا کے ساتھ ساتھ ریپ کا بھی ہے۔

آرزو کے والدین کے مطابق پولیس نے لڑکی کے لاپتا ہونے پر مقدمہ درج کرنے میں بھی شروع میں لیت و لعل سے کام لیا۔ اور مقدمہ درج کرنے کی اگلی ہی تاریخ پر انہیں لڑکی کا نکاح نامہ اور تبدیلی مذہب کی سند دکھائی گئی۔ پولیس کی لڑکی کی بازیابی میں مسلسل تاخیر پر والدین نے سول سوسائٹی کو بھی آگاہ کیا۔ جس پر بھرپور احتجاج کیا گیا اور واقعہ میڈیا پر رپورٹ ہوا۔

معاملہ میڈیا پر آنے اور عدالتی حکم پر پولیس نے لڑکی کو بازیاب کیا۔ جب کہ اغوا کے کیس میں نامزد ملزم اور لڑکی کے شوہر کو بھی گرفتار کر لیا گیا۔

عدالت نے ملزمان کو ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کر دیا ہے۔ عدالت نے ملزم کے ڈی این اے رپورٹ اور دیگر شواہد جمع کر کے پولیس کو تحقیقات مکمل کرنے کا بھی حکم دیا ہے۔

واضح رہے کہ اغوا اور ریپ کے سنگین جرائم کے ساتھ ساتھ سندھ میں 18 سال سے کم عمر میں شادی کرنا بھی جرم ہے۔ اس جرم کے مرتکب افراد بشمول نکاح خواں کو قید کے ساتھ جرمانے کی سزائیں مقرر ہیں۔ جب کہ ایسی شادی کی قانونی طور پر کوئی حیثیت نہیں ہے۔ البتہ کم عمری میں مذہب تبدیل کرنے پر کوئی قانونی قید نہیں ہے۔

سندھ میں ہندو لڑکیوں کے مذہب کی مبینہ جبری تبدیلی کیوں؟
please wait

No media source currently available

0:00 0:03:44 0:00

کم عمری میں مذہب تبدیلی پر صوبائی اسمبلی نے قانون بنا کر گورنر کو ارسال کیا تھا جس پر اعتراض کے بعد اسے منظور نہیں کیا گیا اور بل دوبارہ اسمبلی کو واپس بھیج دیا گیا تھا۔

سندھ میں برسرِ اقتدار پاکستان پیپلز پارٹی نے بل پر نظر ثانی کے بعد مزید بہتری لا کر اسے دوبارہ منظور کرانے کی یقین دہانی کرائی تھی۔

'سندھ میں جبری تبدیلی مذہب کے واقعات میں کوئی حقیقت نہیں'

صوبے میں جبری تبدیلیٔ مذہب کے واقعات پر صوبائی وزیرِ اطلاعات سید ناصر حسین شاہ کہتے ہیں کہ صوبے میں جبری تبدیلی مذہب کے واقعات میں کوئی حقیقت نہیں۔ ایسے الزامات تحقیقات کے بعد جھوٹے ثابت ہوتے ہیں۔

ان کا دعویٰ ہے کہ صوبے میں تمام اقلیتیوں کو مکمل مذہبی آزادی حاصل ہے۔

قانونی ماہرین کے مطابق اس کیس میں کئی چیزیں اب تک واضح نہیں ہیں۔ اب تک یہ واضح نہیں کہ نکاح خواں نے کن شناختی دستاویزات کے تحت لڑکا اور لڑکی کا نکاح پڑھایا۔ جب کہ پولیس بھی تحقیقات میں فی الحال ان سوالات کے جوابات تلاش کرنے میں کامیاب نہیں ہوئی۔

اقلیتوں سے متعلق عالمی سطح پر تشویش

عالمی مذہبی آزادی کے بارے میں امریکی کمشن کی رپورٹ کے مطابق گزشتہ سال یعنی 2019 میں پاکستان میں مذہبی آزادی کا رجحان ایک بار پھر منفی رہا ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ مذہبی اقلیتوں سے جبراََ مذہب تبدیل کرانے کا سدباب کرنے میں حکام کی ناکامی نے مذہب یا عقیدے کی آزادی کو شدت کے ساتھ محدود کیا ہے۔

رپورٹ میں امریکی حکومت کو دی گئی سفارشات کے مطابق کہا گیا تھا کہ پاکستان کو مذہبی آزادی سے متعلق خصوصی تشویش والے ممالک کی فہرست میں شامل کیا جائے۔

XS
SM
MD
LG