رسائی کے لنکس

'اپیل دائر کرنے سے قبل مشرف کو گرفتاری دینا ہو گی'


فائل فوٹو
فائل فوٹو

پاکستان میں سپریم کورٹ کے رجسٹرار نے سابق صدر پرویزمشرف کو خصوصی عدالت کی جانب سے غداری کیس میں سزائے موت کے فیصلے کے خلاف دائر اپیل اعتراض لگا کر واپس کر دی ہے۔

رجسٹرار آفس کے مطابق سابق آرمی چیف آرٹیکل چھ کے تحت سزا یافتہ مجرم ہیں اور انہیں اپیل دائر کرنے کے لیے پہلے گرفتاری دینا ہو گی۔ رجسٹرار آفس نے پیپر بک کی تیاری کے لیے دو ہفتوں کا وقت دینے کی استدعا بھی مسترد کردی ہے۔

وائس آف امریکہ کو موصول ہونے والی رجسٹرار آفس کے اعتراضات کی کاپی کے مطابق سپریم کورٹ کے طے شدہ قواعد و ضوابط کے مطابق مجرم کی درخواست کو سرنڈر سے قبل نہیں سنا جا سکتا۔

رجسٹرار آفس نے اعتراض اُٹھایا کہ پرویز مشرف نے تاحال گرفتاری نہیں دی اور اپیل کے ساتھ متفرق درخواست دائر کر کے علالت کے باعث حاضری سے استشنٰی مانگ لیا۔

رجسٹرار آفس نے اعتراضات کے خلاف اپیل دائر کرنے کے لیے درخواست گزار کو ایک ماہ کا وقت دیا ہے۔

دو روز قبل سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف نے سنگین غداری کیس میں خصوصی عدالت کی جانب سے سزائے موت کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا۔ 65 صفحات پر مشتمل اپیل پرویز مشرف کے وکیل بیرسٹر سلمان صفدر نے سپریم کورٹ میں دائر کی تھی۔

پرویز مشرف کے وکیل سلمان صفدر نے رجسٹرار آفس کے اعتراضات کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ یہ غیر معمولی بات نہیں۔ رجسٹرار آفس کے حکم کے خلاف 30 کے اندر ایک اپیل دائر کریں گے، اس سلسلے میں پہلے ہی اپنے دلائل تیار کر لیے ہیں۔

پروہز مشرف علالت کے باعث دبئی میں زیرِ علاج ہیں۔ (فائل فوٹو)
پروہز مشرف علالت کے باعث دبئی میں زیرِ علاج ہیں۔ (فائل فوٹو)

پرویز مشرف کی طرف سے عدالت عظمیٰ میں اس کے ساتھ ہی دو متفرق درخواستیں عدالت میں دائر کی گئیں۔ جن میں سے ایک میں حتمی فیصلہ سنائے جانے تک خصوصی عدالت کا فیصلہ معطل کرنے کی درخواست کی گئی۔ دوسری درخواست میں پیپر بک کی تیاری کے لیے دو ہفتے کا وقت دینے اور علالت کے باعث حاضری سے استثنٰی کی استدعا شامل تھی۔

اپیل میں مزید کہا گیا کہ خصوصی عدالت نے فیصلہ پرویز مشرف کی عدم موجودگی میں سنایا، انہیں کوئی وکیل کرنے کا موقع نہیں دیا گیا اور غیر حاضری میں ہی ٹرائل کیا گیا۔

درخواست گزار کا کہنا تھا کہ وہ خصوصی عدالت کے فیصلے سے مطمئن نہیں اور انہیں بیان ریکارڈ کرانے کا موقع بھی نہیں دیا گیا۔

خصوصی عدالت کا فیصلہ کیا تھا؟

گزشتہ ماہ 17دسمبر کو خصوصی عدالت نے آئین کے آرٹیکل چھ کے تحت ملک سے غداری کا جرم ثابت ہونے پر سابق صدر اور سابق آرمی چیف جنرل (ر) پرویز مشرف کو سزائے موت سنائی تھی۔

تفصیلی فیصلے میں عدالت نے کہا تھا کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے مجرم کو گرفتار کرکے سزائے موت پر عمل درآمد کرائیں۔

فیصلے کے پیرا 66 میں کہا گیا تھا کہ اگر پرویز مشرف مردہ حالت میں ملیں تو ان کی لاش کو ڈی چوک اسلام آباد میں گھسیٹ کر لایا جائے اور تین دن تک ان کی لاش وہاں لٹکائی جائے۔

اس فیصلے پر پاکستان کی فوج کی طرف سے شدید ردعمل دیکھنے میں آیا تھا۔ بعد میں حکومت نے بھی اس فیصلے کے خلاف اقدامات اٹھانے کا اعلان کیا تھا۔

نومبر 2007 کو پرویز مشرف نے ملک میں ایمرجنسی نافذ کرتے ہوئے آئین معطل اور میڈیا پر پابندی عائد کی تھی۔ اس وقت کے چیف جسٹس سپریم کورٹ افتخار محمد چوہدری سمیت سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس کے 60 کے لگ بھگ ججز کو گھروں میں نظر بند کر دیا گیا تھا۔

پاکستان میں آئین کے آرٹیکل چھ کے تحت آئین کو توڑنا اور اس کام میں مدد کرنا ریاست سے سنگین غداری کا جرم ہے جس کی سزا موت ہے۔

جسٹس وقار سیٹھ (فائل فوٹو)
جسٹس وقار سیٹھ (فائل فوٹو)

سابق وزیر اعظم نواز شریف نے جون 2013 میں سابق صدر کے خلاف غداری کا مقدمہ چلانے کی منظوری دی تھی۔

قانونی مشاورت کے بعد 13 دسمبر 2013 کو پرویز مشرف کے خلاف شکایت درج کرائی گئی۔

پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کا مقدمہ چھ سال سے زائد چلا۔ وہ صرف ایک دفعہ عدالت میں پیش ہوئے اور پھر ملک سے باہر چلے گئے۔

مقدمے کے دوران خصوصی عدالت کے ججز بھی تبدیل ہوتے رہے۔

جسٹس فیصل عرب، جسٹس مظہر عالم میاں خیل اور جسٹس طاہرہ صفدر سمیت سات ججز نے مقدمہ سنا۔ آخر کار 17 دسمبر 2019 کو پشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس وقار سیٹھ کی سربراہی میں قائم تین رکنی بینچ نے اس کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کو سزائے موت سنا دی۔

XS
SM
MD
LG