رسائی کے لنکس

پاکستانی ٹوئٹر سپیسز پر خواتین اتنی سرگرم کیوں ہیں؟


سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر نے اپنی فون ایپ کے ذریعے رواں برس ٹوئٹر سپیسز کا فیچر متعارف کروایا تھا۔ یہ فیچر ابتدائی طور پر ایسے اکاؤنٹس کے لیے ہے جن کے چھ سو سے زائد فالور ہیں۔
سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر نے اپنی فون ایپ کے ذریعے رواں برس ٹوئٹر سپیسز کا فیچر متعارف کروایا تھا۔ یہ فیچر ابتدائی طور پر ایسے اکاؤنٹس کے لیے ہے جن کے چھ سو سے زائد فالور ہیں۔

پاکستان میں اس وقت سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر متعارف کروائے گئے نئے فیچر، ٹوئٹر سپیسز کی دھوم ہے۔ روزانہ کے حساب سے درجنوں ٹوئٹر سپیسز منعقد ہوتی ہیں۔

پچھلے کئی مہینوں سے ٹوئٹر پر فیمن ازم یعنی عورتوں کے مساوی حقوق کے موضوع پر سینکڑوں سپیسز منعقد ہو چکی ہیں جن میں ہزاروں کی تعداد میں ٹوئٹر صارفین نے حصہ لیا اور ہر سپیس میں عورتوں کے حقوق پر گھنٹوں مکالمے منعقد ہوئے۔

ٹوئٹر سپیسز ہے کیا؟

سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر نے اپنی فون ایپ کے ذریعے رواں برس ٹوئٹر سپیسز کا فیچر متعارف کروایا۔ یہ فیچر ابتدائی طور پر ایسے اکاؤنٹس کے لیے متعارف کروایا گیا ہے جن کے چھ سو سے زائد فالور ہیں۔

سپیسز ایک طرح کی آڈیو کی محفل ہے جس میں ایک میزبان، اور اب کئی شریک میزبان کسی بھی موضوع پر آڈیو محفل منعقد کرتے ہیں جس میں کوئی بھی ٹوئٹر صارف چاہے تو بطور سامع شرکت کر سکتا ہے۔ اس دوران میزبان ان صارفین میں سے کسی کو بھی بطور سپیکر محفل میں شامل کر سکتا ہے اور وہ اپنے خیالات کا اظہار اس سپیس میں کر سکتے ہیں۔

میزبان اور شریک میزبان کے پاس یہ اختیار بھی ہوتا ہے کہ وہ کسی کو بطور سپیکر شامل کرنے کے علاوہ نکال بھی سکتے ہیں۔ اور مکالمے کا انتظام سنبھالتے ہوئے کسی کی آواز بند بھی کر سکتے ہیں۔

یہ آڈیو محفل ٹوئٹر کی فون ایپ پر ہیڈر پر دیکھی جا سکتی ہے، اور کمپیوٹر براؤزر پر ویب سائٹ پر دائیں جانب اس کا آپشن ہے جس پر کلک کر کے یہ سپیسز سنی جا سکتی ہیں۔

فیمن ازم کے موضوع پر اتنی سپیسز کیوں منعقد ہو رہی ہیں؟

صحافی اور ریسرچر تزئین جاوید نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ جب سپیسز آئیں تب پاکستان میں دو بڑے واقعات ہوئے تھے جن پر بہت سے لوگوں نے بات کرنا ضروری سمجھا۔ ایک نور مقدم کا قتل اور دوسرا مینار پاکستان پر خاتون ٹک ٹاکر کے ساتھ ہجوم کی دست درازی کا واقعہ۔

تزیئن کہتی ہیں ان واقعات کے سبب بہت سی ایسی خواتین جو اب تک خاموش تھیں، وہ بھی یہ کہنے پر مجبور ہو گئیں کہ ’’بس بہت ہو گئی‘‘۔ اور انہوں نے ٹویٹر سپیسز میں اپنا ردعمل ظاہر کیا۔ ان واقعات اور ان کے محرکات پر مردوں نے بھی بحث شروع کر دی۔ یوں تزیئن کی نظر میں معاشرے میں خواتین کے مقام پر بات چیت ٹوئٹر سپیسز میں روزانہ کا معمول بن گئی۔

کیا یہ سپیسز ایک نیا مکالمہ پیدا کر رہی ہیں؟

ان سپیسز کا آغاز ہوئے زیادہ وقت نہیں ہوا اس لئے بعض میزبانوں کی نظر میں شاید یہ اندازہ لگانا قبل از وقت ہو گا کہ یہاں ہونے والی گفتگو صارفین کی سوچ بدل رہی ہے یا فیمن ازم پر پاکستان میں گفتگو ایک نئے دور میں داخل ہو گئی ہے۔

لیکن کچھ میزبانوں کی رائے میں قابل ذکر بات یہ ہے کہ ان سپیسز میں خواتین کارکنوں کا نوجوانوں سے رابطہ قائم ہو رہا ہے۔

ٹوئٹر سپیسز میں شرکت کرنے والی سحرش راشد کہتی ہیں کہ انہیں اس پلیٹ فارم پر عورتیں کھل کر بولتی نظر آتی ہیں جو انہیں اچھا لگتا ہے۔

کیا خواتین ٹوئٹر سپیسز میں مردوں کو نشانہ بنا رہی ہیں؟

ٹوئٹر پر منعقد ہونے والی سپیسز میں مردوں اور خواتین کے درمیان بحث اور ایک دوسرے کے نکتہ نظر پر تنقید تو عام بات ہے مگر بعض سپیسز پر غیر اخلاقی رویوں کو فروغ دینے کا الزام عائد کیا جاتا ہے۔ مثلا المردہ سکول ایک ایسی سپیس ہے جہاں مردوں کے بارے وہ باتیں کہی جاتی ہیں جو عموما پاکستانی معاشرے میں خواتین کو سننی پڑتی ہیں، مثلا یہ کہ " آپ کی وجہ سے آپ کے خاندان کی عزت خطرے میں پڑ سکتی ہے تو احتیاط کریں"، وغیرہ وغیرہ۔۔۔

اس سپیس کی میزبان نادیہ یوسف زئی کہتی ہیں کہ ان کا مقصد مردوں کو اس تکلیف کا احساس دلانا ہے جو ایک پدر شاہی معاشرے میں خواتین محسوس کرتی ہیں۔

مرد کیا سوچ رہے ہیں؟

افضل وڑائچ ٹوئٹر سپیسز میں ایک جانا پیچانا نام ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ عورتوں کو پاکستان میں بہت سی ناانصافیوں کا سامنا ہے جن پر بات کی جانی چاہیے مگر ان کے مطابق بعض سپیسز میں فطرت اور معاشرے کے بنائے اصولوں کو توڑنے پر اکسانے کی کوشش بھی کی جاتی ہے۔

تاہم ٹوئٹر سپیسز میں مسلسل شرکت کرنے والے کاشف فیروز نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ انہیں گفتگو سن کر احساس ہوتا ہے کہ فیمن ازم بقول ان کے پورا کا پورا غلط نہیں ہے۔ اور فیمن ازم کے حامیوں اور مخالفین میں نظریاتی تصادم نظر آتا ہے لیکن دونوں گروہ معاشرے کو بہتر بنانا چاہتے ہیں۔

ٹوئٹر سپیسز سن کون رہا ہے؟

ٹوئٹر سپیسز ایک عوامی پلیٹ فارم ہے جہاں انٹرنیٹ کنکشن رکھنے والا کوئی بھی آ سکتا ہے۔ افضل وڑایچ کہتے ہیں کہ چونکہ یہ مکالمے بند کمروں میں نہیں ہو رہے بلکہ ان میں عوامی شرکت بڑھ رہی ہے اس لئے ان کے ممکنہ اثرات کے بارے میں سنجیدگی سے سوچا جانا چاہیے۔

لیکن یہ بھی حققیت ہے کہ پاکستان میں انٹر نیٹ آبادی کے ایک محدود حصے کے پاس ہے۔ اور ان صارفین کا بہت ہی چھوٹا حصہ، جو کہ بعض اندازوں کے مطابق صرف ایک فیصد ہے، ٹوئٹر استعمال کرتا ہے۔ اس لیے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ٹوئٹر سپیسز میں فیمین ازم سے متعلق گفتگو میں جو لوگ حصہ لے رہے ہیں وہ کس حد تک عوامی رائے کی عکاسی کرتے ہیں؟

سپیسز جیسی ٹیکنالوجی اب دیگر سوشل میڈیا کمپنیاں بھی اپنے پلیٹ فارمز پر لانے کی کوشش کر رہی ہیں اور اس کی مقبولیت میں اضافہ متوقع ہے۔ مگر جب تک عوام کا ایک بڑا حصہ چیٹ رومز میں موجود نہیں ہو گا، تب تک شاید یہاں ہونے والی گفتگو ڈرائنگ روم کی گپ شپ سے کچھ بہت زیادہ نہ سمجھی جائے۔

XS
SM
MD
LG