رسائی کے لنکس

کیا حماس کا خاتمہ اور فلسطینی اتھارٹی کاغزہ میں اقتدارممکن ہے؟


15 دسمبر 2023 کو مقبوضہ مغربی کنارے کے الخلیل شہر میں نماز جمعہ کے بعد ایک ریلی کے دوران مظاہرین فلسطینی حماس گروپ کے جھنڈوں کے ساتھ غزہ میں حماس کے خلاف اسرائیل کیجنگ کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں۔ (تصویر۔ اے ایف پی)
15 دسمبر 2023 کو مقبوضہ مغربی کنارے کے الخلیل شہر میں نماز جمعہ کے بعد ایک ریلی کے دوران مظاہرین فلسطینی حماس گروپ کے جھنڈوں کے ساتھ غزہ میں حماس کے خلاف اسرائیل کیجنگ کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں۔ (تصویر۔ اے ایف پی)

غزہ کی صورتحال اور علاقے میں ہونے والی ہلاکتوں کو دیکھتے ہوئے امریکہ اس مسئلے کا دیر پا حل تلاش کرنے کا خواہاں ہے۔ ایک طرف جہاں وہ حماس کی غزہ میں موجودگی کے خلاف ہے ، وہاں یہ سوال بھی اٹھایا جا رہا ہے کہ کیا غزہ میں فلسطینی اتھارٹی کا اقتدار ممکن ہے۔

اس صورتحال کو سامنے رکھتے ہوئے امریکی صدر جو بائیڈن نے حماس گروپ کو جوابدہ ٹھہرانے کے عزم کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’’حماس کا مقابلہ کرنے کی ضرورت کے بارے میں کسی سوال کی کوئی گنجائش ہی نہیں ہےَ‘‘

اسرائیل ان لوگوں کوہدف بنا رہا ہے جنہوں نے اس کے بقول 7 اکتوبر کے حملوں کی سازش تیار کی۔ان میں غزہ میں حماس کے رہنما یحییٰ سنوار ، گروپ کے عسکری ونگ القسام بریگیڈز کے کمانڈر محمد دیف اور دیف کے نائب مروان عیسیٰ شامل ہیں ۔

وائٹ ہاؤس نے تسلیم کیا ہے کہ حماس کی عسکری صلاحیت کو کم کرنے اور اس کی قیادت کو ہٹا دینے سے تنظیم کی وہ صلاحیت متاثر ہوگی جس کا تعلق حملوں کی منصوبہ بندی کرنے اور اس پر عمل درآمد کرنے سے ہے۔

ایک بااختیار فلسطینی اتھارٹی

صدر بائیڈن نے کہا کہ فلسطینیوں کا نظم ونسق بہتر طور پر نہیں چلایا جا سکا۔ایسا بہت کچھ ہوا ہے جو بہت منفی ہے۔

فلسطینی اتھارٹی نے 1993 میں اپنے قیام اور خاص طور پر 2000 کی دہائی کے اوائل میں دوسرے انتفادہ کے بعد سے فلسطینیوں میں اپنی ساکھ کھو ئی ہے۔

حماس نے 2006 میں فلسطینی اتھارٹی کے خلاف مہم چلائی اور اسے شکست دے کر غزہ کا کنٹرول سنبھال لیا۔

فلسطینی سینٹر فار پالیسی اینڈ سروے ریسرچ نے مارچ میں ایک سروے کیا جس کے مطابق مغربی کنارے اور غزہ میں فلسطینیوں کی بھاری اکثریت کا خیال ہے کہ فلسطینی اتھارٹی بدعنوان ہے اور اس کے صدر محمود عباس کو اپنے منصب سے ہٹ جانا چاہئیے۔

وائٹ ہاؤس کے قومی سلامتی کے مشیر جیک سلیون نے جمعرات کے روز رملہ میں اس بات کا اعادہ کیا تھاکہ غزہ میں جنگ کے بعد فلسطینی اتھارٹی کو وہاں حکمرانی کے فرائض سنبھالنے چاہیئں۔ تاہم، ساتھ ہی انہوں نے اس بات پر بھی زور دیا کہ تنظیم کو اپنی ’’تجدید اور احیاء‘‘کی ضرورت ہوگی۔

جارج واشنگٹن یونیورسٹی کے ایلیٹ اسکول آف انٹرنیشنل افیئرز میں خلیج اور جزیرہ نما عرب امور کے پروفیسر گورڈن گرے نے کہا کہ یہ ایک دشوار ہدف ہے جس کے لیے بہت زیادہ بین الاقوامی حمایت درکار ہوگی۔

گرے نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ جزوی طور پر نیتن یاہو بھی قصوروار ہیں۔ وزیراعظم کا دعویٰ ہے کہ امن کے لیے کوئی قابل اعتماد اور متحد فلسطینی شراکت دار نہیں ہیں تاہم ان کے ناقدین ان پر الزام لگاتے ہیں کہ وہ جان بوجھ کر فلسطینی قیادت کومالیاتی طور پر کمزور کر رہے ہیں جبکہ حماس کو غیر ملکی فنڈز کے حصول کی اجازت دے کر اسے بااختیار بنا رہے ہیں۔

سعودی اسرائیل تعلقات کو معمول پر لانا

صدر بائیڈن کہتے ہیں کہ ’’سعودی عرب سے لے کرمتعدد دوسری ریاستیں تعلقات کو معمول پر لانا چاہتی ہیں۔‘‘ امریکی قومی سلامتی کے مشیر جیک سلیون نے اسرائیل اور مغربی کنارے جانے سے پہلے بدھ کے روزریاض میں قیام کیاتھا۔

اسرائیلی وزیر اعظم اور سعوی ولی عہد (اے ایف پی فوٹو)
اسرائیلی وزیر اعظم اور سعوی ولی عہد (اے ایف پی فوٹو)

سعودی عرب ایک اہم عرب ملک اور مسلم دنیا کی رائے استوار کرنے کا حامل ملک ہےاور اس کی جانب سے اسرائیل کو قبول کرنا ابراہیمی معاہدے کی ایک بڑی توسیع کی نشاندہی کرے گا جس کے تحت اسرائیل اور اس کے چند عرب پڑوسیوں کے درمیان سفارتی تعلقات بحال ہوئے تھے۔

سابق صدر ٹرمپ کے دور میں اس معاہدے کو متعارف کرایاگیا تھا۔ بیشتر عرب ممالک نے کئی دہائیوں سے دو ریاستی حل کے لیے اسرائیل پر دباؤ ڈالنے کے لیے اس کے ساتھ سفارتی تعلقات منقطع کر رکھے تھے۔

ایسامعلوم ہوتا ہے کہ سعودی اسرائیل معاہدہ 7 اکتوبر سے پہلے تقریباً طے ہو نے والا تھا جس کی ایک جزوی وجہ ریاض اور اسرائیل کی ایران کے خطرے کے بارے میں باہمی تشویش تھی ۔

تاہم، امارات بحرین اور مراکش کے برعکس سعودی ایسا کوئی معاہدہ کرنے سے گریزاں تھے جس سے فلسطینیوں کو نقصان پہنچے۔ ان تینوں ممالک نے 2020 میں اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کے معاہدے پر دستخط کیے تھے۔

ریاض اس بات پر نظر رکھے ہوئے ہے کہ تعلقات کو معمول پر لانے کا سب سے بڑا انعام امریکہ کے ساتھ ایک دفاعی معاہدہ ہے جو ایران کے خلاف اس کا تحفظ کرے گا۔

سعودی عرب نے تعلقات معمول پر آنے والی بات چیت کو معطل کر دیا تھا کیونکہ فلسطینیوں کی بڑھتی ہوئی اموات کی سامنے آنے والی تصاویر نے عرب دنیا کو مشتعل کیا تھا۔

غزہ کے شہری سمندر کا پانی استعمال کرنے پر مجبور
please wait

No media source currently available

0:00 0:01:13 0:00

واشنگٹن میں مڈل ایسٹ انسٹی ٹیوٹ کے ایک سینئر فیلو برائن کیٹولس نے کہا ہے کہ سعودی عرب اور اسرائیل کے تعلقات کو معمول پر لانے کے لیے امریکی دباؤ انتظامیہ کی اس خلا کو پر کرنے کی کوشش کا حصہ ہےجس کا تعلق غزہ میں اس وقت ہونے والی زمینی کارروائی اور اس کے نتیجے سے ہے۔

انہوں نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ’’ یہاں میرے خیال میں راز کی بات یہ ہے کہ نہ تو امریکہ، نہ اسرائیل، نہ فلسطینی اتھارٹی، اور نہ ہی عرب شراکت داروں کو اس بات کا واضح اندازہ ہے کہ اس ساری صورتحال کا انجام کیا ہوگا۔‘‘

وائس آف امریکہ کی نامہ نگار Patsy Widakuswaraکی رپورٹ۔

فورم

XS
SM
MD
LG