رسائی کے لنکس

پاک امریکہ ’اسٹرکچرڈ ڈائیلاگ پروسیس‘ کا جلد دوبارہ آغاز ہوگا: احسن اقبال


فائل
فائل

بقول اُن کے، ’’کوئی یکطرفہ عمل مناسب نہیں ہوگا۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ خطے میں سلامتی کے خدشات پر امریکہ کی تشویش کا مداوا ہو، لیکن پاکستان کی تشویش باقی رہے‘‘۔

پاکستان کے وزیر داخلہ احسن اقبال نے جمعرات کے روز اس توقع کا اظہار کیا کہ ’’بہت جلد‘‘ پاکستان اور امریکہ کے مابین ’اسٹرکچرڈ ڈائلاگ پروسیس‘ کا دوبارہ آغاز ہوجائے گا، جس کا، بقول اُن کے، ’’سب کو فائدہ ہوگا‘‘۔

اُنھوں نے کہا کہ ’’دونوں ملکوں کے سکیورٹی کے جائز خدشات کو دور کیا جانا چاہیئے، یکطرفہ طور پر کسی عمل سے خدشات دور نہیں ہو سکتے‘‘۔

وزیر داخلہ نے یہ بات اپنے سہ روزہ دورہٴ امریکہ کے اختتام پر اخباری کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہی۔ اُنھوں نے کہا کہ ’’ضرورت اِس بات کی ہے کہ بداعتمادی کی فضا ختم ہو، اور پاکستان کی علاقائی خودمختاری کا احترام کیا جائے‘‘۔

اُنھوں نے کہا کہ دورہٴ امریکہ میں انتظامیہ کے حکام اور ایوان نمائندگان کے ارکان سے ملاقاتوں کے دوران، پاکستان کا نقطہٴ نظر بیان کرنے میں مدد ملی؛ اور یہ کہ پاکستان امریکہ کے ساتھ اچھے تعلقات چاہتا ہے۔ بقول اُن کے، ’’کوئی یکطرفہ عمل مناسب نہیں ہوگا۔ یہ نہیں ہوسکتا کہ خطے میں سلامتی کے خدشات پر امریکہ کی تشویش کا مداوا ہو، لیکن پاکستان کی تشویش باقی رہے‘‘۔

اُنھوں نے کہا کہ ’’امریکہ اور پاکستان مل کر افغانستان میں بہتر کردار ادا کرسکتے ہیں، اور یہ کہ افغانستان کا امن پاکستان کے لیے اہم ہے، کیونکہ دونوں ہمسائے ایک دوسرے سے وابستہ ہیں، اور وابستہ رہیں گے‘‘۔

ادھر افغانستان اور پاکستان کے حوالے سے اُنھوں نے بتایا کہ ’’بات چیت کا عمل شروع ہوچکا ہے‘‘، اور یہ کہ، دونوں ہمسایہ ملک پہلے ہی ’’باقاعدہ، مسلسل بات چیت اور رابطے میں رہنے پر اتفاق کرچکے ہیں‘‘، جس بات کی، بقول اُن کے، ’’موجودہ صورت حال میں بہت ضرورت ہے‘‘۔

ساتھ ہی، احسن اقبال نے کہا کہ ’’پاکستان اُن قوتوں پر نظر رکھے ہوئے ہے، جو ملک کو کمزور کرنے کی خواہاں ہیں‘‘۔

افغانستان کے ساتھ تعلقات کے سلسلے میں، وزیر داخلہ نے مزید کہا کہ ’’ہم جنگ میں نہیں ترقی میں مقابلہ کرنا چاہتے ہیں‘‘۔ اُنھوں نے کہا کہ افغانستان و پاکستان میں غربت اور بے روزگاری کےیکساں مسائل ہیں، جنھیں حل کیا جانا ترجیح کا حامل ہونا چاہئے۔

پاکستان امریکہ تعلقات سے متعلق ایک سوال کے جواب میں، اُنھوں نے کہا کہ ’’باہمی احترام کے نتیجے میں جو بات ہوگی وہی کامیاب ہوگی۔ دباؤ کے حربے بے نتیجہ اور ناکام ثابت ہوتے ہیں ۔‘‘

اُنھوں نے کہا کہ ماضی میں بھی پاکستان امریکہ تعلقات میں ’’اونچ نیچ آتی رہی ہے‘‘۔ اس ضمن میں پریسلر ترمیم کا حوالہ دیتے ہوئے، اُنھوں نے کہا کہ ’’ہم نے بدترین پابندیوں کا بھی مقابلہ کیا‘‘۔

بقول اُن کے، علاقے کے کچھ ملک نہیں چاہتے کہ امریکہ پاکستان تعلقات میں بہتری آئے۔

دہشت گردی کے خلاف لڑائی کے بارے میں اُنھوں نے کہا کہ گذشتہ تین سال کے دوران اپنے وسائل سے جنگ لڑی گئی ہے، جس سلسلے میں، بقول اُن کے، ’’کافی کامیابی ہوئی ہے، جب کہ اس کے لیے بھاری جانی قربانیاں پیش کی گئی ہیں‘‘۔

XS
SM
MD
LG