رسائی کے لنکس

کرائسٹ چرچ مقتولین کی تدفین شروع، جمعے کی اذان ٹی وی پر نشر کرنے کا اعلان


کرائسٹ چرچ حملے میں زخمی ہونے والا شامی نژاد نوجوان زید مصطفیٰ حملے میں مارے جانے والے اپنے والد اور بھائی کے جنازے میں شریک ہے۔
کرائسٹ چرچ حملے میں زخمی ہونے والا شامی نژاد نوجوان زید مصطفیٰ حملے میں مارے جانے والے اپنے والد اور بھائی کے جنازے میں شریک ہے۔

نیوزی لینڈ کی وزیرِ اعظم جیسنڈا آرڈرن نے اعلان کیا ہے کہ کرائسٹ چرچ کی دو مساجد میں فائرنگ سے ہلاک اور زخمی ہونے والوں سے اظہارِ یکجہتی کے لیے آئندہ جمعے کی اذان ملک بھر میں سرکاری ٹی وی اور ریڈیو پر براہِ راست نشر کی جائے گی۔

وزیرِ اعظم نے جمعے کو مساجد پر فائرنگ کا ایک ہفتہ مکمل ہونے کے موقع پر ملک بھر میں دو منٹ کی خاموشی اختیار کرنے کا بھی اعلان کیا ہے۔

وزیرِ اعظم کے بقول پورا نیوزی لینڈ یہ چاہتا ہے کہ وہ حملے سے متاثرہ افراد اور اپنے مسلمان بھائیوں اور بہنوں کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کرے اور اسی لیے انہوں نے دو منٹ کی خاموشی اختیار کرنے اور اذان براہِ راست پر نشر کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

نیوزی لینڈ کی وزیرِ اعظم نے یہ اعلان بدھ کو کرائسٹ چرچ کے 'کشمیر ہائی اسکول' کے دورہ کے دوران طلبہ سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ اس اسکول کے دو موجودہ اور ایک سابق طالبِ علم بھی مساجد پر حملے میں ہلاک ہونے والوں میں شامل تھے۔

وزیرِ اعظم نے کرائسٹ چرچ کے دورے کے دوران پولیس اور طبی عملے کے ان اہل کاروں سے بھی ملاقات کی جو حملے کے بعد سب سے پہلے مساجد پہنچے تھے اور وہاں امدادی سرگرمیاں انجام دی تھیں۔

کرائسٹ چرچ کی دو مساجد پر نمازِ جمعہ کے دوران فائرنگ سے 50 افراد ہلاک اور 40 سے زائد زخمی ہوگئے تھے۔

ہلاک ہونے والوں میں اکثریت تارکینِ وطن اور پناہ گزینوں کی تھی جن کا تعلق، پاکستان، بھارت، بنگلہ دیش، افغانستان، ملائیشیا، انڈونیشیا، ترکی اور صومالیہ سے ہے۔

ہلاک شدگان کی تدفین شروع

حملے میں ہلاک ہونے والوں کی تدفین کا سلسلہ بھی شروع ہو گیا ہے۔ سب سے پہلی تدفین شامی نژاد باپ بیٹے، خالد مصطفیٰ اور حمزہ مصطفیٰ کی ہوئی جنہیں بدھ کی صبح سینکڑوں سوگواروں کی موجودگی میں کرائسٹ چرچ کے میموریل پارک نامی قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا۔

نمازِ جنازہ اور تدفین میں شرکت کے لیے ملک بھر سے مسلمان کرائسٹ چرچ پہنچے تھے۔

تدفین کے موقع پر سیکورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے تھے اور قبرستان کے اندر اور ارد گرد پولیس کے مسلح اہل کار تعینات تھے جن کی بندوقوں پر پھول لگے ہوئے تھے۔

تدفین کے موقع پر تعینات کئی خواتین پولیس اہل کاروں اور رضاکاروں نے مسلمانوں سے اظہارِ یکجہتی کے لیے سروں پر سیاہ دوپٹے بھی اوڑھ رکھے تھے۔

حکام کا کہنا ہے کہ منگل کی شام تک 21 لاشوں کی شناخت ہو چکی تھی جنہیں لواحقین کے سپرد کرنے کا سلسلہ شروع کر دیا گیا ہے۔ دیگر لاشوں کی شناخت بدھ کی رات تک مکمل ہونے کا امکان ہے۔

نیوزی لینڈ پولیس کے سربراہ مائیک بش نے کہا ہے کہ لاشوں کی حوالگی میں تاخیر قانونی تقاضوں کی وجہ سے ہو رہی ہے کیوں کہ پولیس کو ہر مرنے والے کی وجۂ موت کے متعلق معاملے کی نگرانی کرنے والے جج اور تفتیش کاروں کو مطمئن کرنا ہوتا ہے۔

ان کے بقول یہ ساری کارروائی ملزم کو سزا دلانے کے لیے ضروری ہے۔

حملے کی تحقیقات جاری

دارالحکومت ویلنگٹن میں ایک پریس کانفرنس کے دوران پولیس چیف نے صحافیوں کو بتایا کہ حملے کی تحقیقات میں امریکہ کی 'ایف بی آئی' کے علاوہ اسٹریلیا، کینیڈا اور برطانیہ کے انٹیلی جینس ادارے بھی نیوزی لینڈ کی پولیس کے ساتھ تعاون کر رہے ہیں۔

وزیرِ اعظم جیسنڈا آرڈرن کے مطابق مبینہ حملہ آور 28 سالہ برینٹن ٹیرنٹ دنیا بھر کا سفر کر چکا ہے ۔ ملزم آسٹریلیا کا شہری ہے جسے نیوزی لینڈ منتقل ہوئے زیادہ عرصہ نہیں ہوا تھا۔

ملزم کو پولیس نے حملے کے کچھ ہی دیر کے بعد گرفتار کر لیا تھا جسے بعد ازاں مقامی عدالت نے پانچ اپریل تک ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کر دیا تھا۔

نیوزی لینڈ کی وزیرِ اعظم جیسنڈا آرڈرن مسلمان کمیونٹی کے رہنماؤں سے گفتگو کر رہی ہیں۔
نیوزی لینڈ کی وزیرِ اعظم جیسنڈا آرڈرن مسلمان کمیونٹی کے رہنماؤں سے گفتگو کر رہی ہیں۔

عدالت میں پہلی پیشی کے موقع پر ملزم پر صرف قتل کی فردِ جرم عائد کی گئی تھی۔ پولیس کا کہنا ہے کہ ملزم کو پانچ اپریل کو دوبارہ عدالت میں پیش کیا جائے گا اور اس موقع پر اس پر مزید الزامات کی فردِ جرم پیش کی جائے گی۔

حکام کا کہنا ہے کہ حملے میں زخمی ہونے والے 29 افراد تاحال اسپتال میں زیرِ علاج ہیں جن میں سے8 کی حالت بدستور تشویش ناک ہے۔

XS
SM
MD
LG