رسائی کے لنکس

امریکی ایوان میں 'اسلاموفوبیا' کو مانیٹر کرنے کا بل منظور


ڈیموکریٹ پارٹی کی ایوان نمائندگان کی رکن، الہان عمر۔ 20 اپریل، 2021ء (فائل فوٹو)
ڈیموکریٹ پارٹی کی ایوان نمائندگان کی رکن، الہان عمر۔ 20 اپریل، 2021ء (فائل فوٹو)

امریکہ کے ایوان نمائندگان میں حال ہی میں ایک رکن کی جانب سے نسل پرست بیانات کا نشانہ بننے والی مسلمان رکن الہان عمر کی حمایت سے متعارف کرائے گئے اس بل کو منظور کر لیا گیا ہے جس کے تحت امریکی وزارت خارجہ میں ایک خصوصی سفیر کی تقرری ہو گی جو دنیا بھر میں اسلاموفوبیا کو مانیٹر کرنے اور اس سے نمٹنے پر کام کریں گے۔

حزب اختلاف کی ری پبلیکن پارٹی سے تعلق رکھنے والی کانگریس کی رکن لارین بوبرٹ نے حال ہی میں برسرا قتدار ڈیموکریٹک پارٹی کی الہان عمر کو ایسے مذاق کا نشانہ بنایا جسے نسل پرستی اور "اسلاموفوبیا" پر مبنی قرار دیا گیا۔

لیکن ایسا پہلی بار نہیں ہوا کہ لارین نے اپنی مسلمان ساتھی کا تمسخر اڑایا ہو۔

لارین بوبرٹ نے پچھلے ہی ماہ ایوان میں ایک بحث کے دوران صومالیا میں پیدا ہونے والی امریکی مسلمان اور تارک وطن الہان عمر پر طنز کیا تھا کہ وہ لبرل قانون سازوں کے 'جہاد اسکواڈ' کا حصہ ہیں۔

الہان عمر کا امریکی مسلمانوں کے حقوق کے لیے جدوجہد جاری رکھنے کا وعدہ
please wait

No media source currently available

0:00 0:02:50 0:00

اس پس منظر میں ڈیموکریٹک میمبر جیمز مک گوورن نے، جو کہ ایوان کی رولز کمیٹی کے چیرمین ہیں، منگل کو اس بل پر بحث کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ دنیا بھر میں اور امریکہ میں مسلمانوں کے خلاف پائے جانے والے جذبات میں ایک سروے کے مطابق اضافہ ہوا ہے اور اس بات کی ضرورت ہے کہ امریکہ کی طرف سے اس معاملے پر ایک جاندار جواب دیا جائے۔

انہوں نے ایوان کو بتایا کہ وہ اس نتیجے پر اس لیے پہنچے کہ ان کی ایک ساتھی رکن نے ایک مسلم رکن کے خلاف ایک "من گھڑت کہانی کو بار بار دہراتے ہوئے یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ وہ ایک دہشت گرد ہیں، محض اس لیے کہ وہ مسلمان ہیں۔"

مک گوورن نے بوبرٹ کا نام لیے بغیر کہا کہ ایسا کرنا "پورے ادارے پر ایک داغ ہے۔"

بوبرٹ پہلی بار ریاست کولوراڈو سے کانگریس کی رکن منتخب ہوئی ہیں۔

اوان نماؑندگان کی رکن لورین بوبرٹ
اوان نماؑندگان کی رکن لورین بوبرٹ

مبصرین کے مطابق یہ بل سینیٹ سے منظور ہونا مشکل ہے۔ لیکن یہ آزمائشی مرحلہ سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی ری پبلکن پارٹی کے اندر کے حالات کی ایک جھلک ظاہر کرتا ہے۔

یاد رہے کہ سابق صدر کے حامیوں نے اس سال چھ جنوری کو موجودہ صدر جو بائیڈن کی کامیابی کو الٹنے کے لیے کیپیٹل ہل پر دھاوا بول دیا تھا۔

خبر رساں ادارے ایسو سی ایٹڈ پریس کی ایک رپورٹ کے مطابق اب صورت حال یہ ہے کہ ری پبلیکن پارٹی کے رہنما اپنے لوگوں کی کھلم کھلا سرزنش کرنے سے یا تو قاصر ہیں یا وہ ایسا کرنا نہیں چاہتے۔ ایسا رویّہ خاص طور پر ان لوگوں کے متعلق دیکھنے میں آیا ہے جو ٹرمپ کے اتحادی ہیں حالانکہ ان کے بیانات نسل پرستی پر مبنی نفرت انگیز جانے جاتے ہیں۔

ایوان کی سپیکر نینسی پیلوسی نے منگل کے روز نامہ نگاروں کو بتایا کہ رکن بوبرٹ کے رویے کے خلاف یہ بل ڈیموکریٹک لیڈرز کی طرف سے آخری اقدام نہیں ہے۔

لیکن ڈیموکریٹس یہ بھی کہتے ہیں کہ یہ بات ری پبلکن پارٹی کے رہنماوں پر منحصر ہے کہ وہ اپنی جماعت کے منہ پھٹ ارکان، جو حد سے آگے گزر جائیں، ان سے کیسے نمٹتے ہیں۔

اب تک ڈیمو کریٹک جماعت سے تعلق رکھنے والے ارکان نے بوبرٹ کی مذمت کے مزید تعزیری اقدامات یا انہیں ایوان کی کمیٹیوں سے ہٹانے کی تجاویز سے گریز کیا ہے، جیسا کہ کچھ دوسرے میمبران کے ساتھ ہوا تھا اور جیسا کہ کچھ ڈیموکریٹس چاہتے ہیں۔

ادھر ری پبلکن پارٹی کے لیڈر کیون مکارتھی نے اس سلسلے میں مزید کسی قسم کے اقدام کا کوئی عندیہ نہیں دیا۔

مکارتھی کا کہنا ہے کہ انہون نے بوبرٹ کے بیانات کے بعد بوبرٹ اور عمر کے درمیان ٹیلی فون پر بات کروانے میں کردار ادا کیا۔ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ ٹیلی فون پر بات سے قبل بوبرٹ نے معذرت کی تھی۔

لیکن بہت سے قانون سازوں نے بوبورٹ کی معذرت کو ناکافی قرار دیا ہے، جس کے مطابق،بوبرٹ نے یہ کہا تھا کہ اگر ان کی باتوں نے مسلم کمیونٹی کے کسی فرد کو خفا کیا ہے تو وہ ان سے معذرت کرتی ہیں۔حالانکہ بوبرٹ اور عمر کے درمیان ٹیلی فون کی کال اچانک ختم ہوگئی تھی، اور بوبورٹ نے الہان عمر سے کھلے عام معافی مانگنے کی بات کو رد کردیا تھا اور کہا کہ کال عمر نے ختم کی تھی۔ اس کے بعد عمر نے ایک بیان میں کہا تھا کہ انہوں نے اس بے سود کال کو خود ختم کیا تھا۔

بوبرٹ نے تھینگس گیونگ کے تہوار کے قریب اس وقت ایک طوفان برپا کر دیا تھا جب انہوں نے اپنے حلقے کے لوگوں کو عمر کے ساتھ ایوان کی لفٹ میں ہونے والی بات سے متعلق ایک ویڈیو جاری کی۔

ایوان کی لفٹ پر قدم رکھتے ہوئے بوبرٹ نے عمر کو دیکھا تو کہا "بھئی اس کے پاس تو کوئی تھیلا نہیں ہے اور ہم سب ٹھیک رہیں گے۔"

بوبرٹ کا تھیلے کا ذکر خودکش حملہ آوروں کے حوالے سے تھا۔

یاد رہے کہ الہان عمر کانگریس میں اس وقت چند مسلمان ارکان میں شامل ہیں اور سر پر سکارف باندھتی ہیں۔

الہان عمر نے کہا ہے کہ بوبرٹ جس واقعہ کا ذکر کرتی ہیں وہ کبھی ہوا ہی نہیں۔

(خبر کا مواد اے پی سے لیا گیا ہے)

XS
SM
MD
LG