رسائی کے لنکس

بھارت: حکومت پر تنقید کرنے والے صحافیوں کے خلاف مقدمات کا اندراج


فائل فوٹو
فائل فوٹو

دہلی پولیس نے بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے ایک رہنما کی شکایت پر سینئر صحافی وِنود دُوا کے خلاف مقدمہ درج کیا ہے۔ ان پر دہلی فسادات کے دوران گمراہ کن رپورٹنگ کا الزام ہے۔ اسی طرح اترپردیش کی پولیس نے حکومت کی مبینہ ناکامیوں کی رپورٹنگ کرنے پر دو صحافیوں کے خلاف فتح پور میں ایف آئی آر درج کی ہے۔

صحافیوں کے خلاف مقدمات کے اندراج پر صحافی برادری کی جانب سے احتجاج کیا جا رہا ہے۔

بی جے پی کے ایک کارکن نوین کمار نے اپنی شکایت میں وِنود دُوا کے خلاف شہریت ترمیمی قانون (سی اے اے) اور شہریوں کے قومی رجسٹر (این آر سی) کے خلاف ہونے والے احتجاج اور دہلی فسادات کے دوران گمراہ کن رپورٹنگ کا الزام عائد کیا ہے۔

وِنود دُوا کے خلاف درج ایف آئی آر کے مطابق انہوں نے دہلی فسادات کے لیے وزیرِ اعظم نریندر مودی، وزیرِ داخلہ امِت شاہ اور بی جے پی رہنما کپل مشرا کو مورد الزام ٹھہرایا تھا۔

ایک دوسرے واقعے میں اُتر پردیش میں فتح پور کی پولیس نے دو صحافیوں اجے سنگھ بھدوریا اور وویک مشرا کے خلاف متعدد دفعات کے تحت ایف آئی آر درج کی ہے۔ بھدوریا نے کمیونٹی کچن بند ہونے اور مشرا نے گائیوں کے رکھنے کی جگہ گاؤ شالہ میں بد انتظامی کی رپورٹنگ کی تھی۔

'ایڈیٹرز گلڈ آف انڈیا' اور انڈین جرنلسٹس یونین (آئی جے یو) نے ان کارروائیوں کو آزادی اظہار پر کیا جانے والا حملہ قرار دیا ہے جب کہ صحافیوں کے خلاف جھوٹے الزامات کے تحت مختلف ریاستوں میں پولیس کی کارروائیوں کے بڑھتے ہوئے رجحان پر شدید تشویش کا اظہار کیا۔

وِنُود دُوا کو 2008 میں بھارت کا اہم سویلین ایوارڈ پدماشری دیا گیا تھا۔ (فائل فوٹو)
وِنُود دُوا کو 2008 میں بھارت کا اہم سویلین ایوارڈ پدماشری دیا گیا تھا۔ (فائل فوٹو)

'وِنود دُوا ٹی وی صحافت کے بانی اور بے داغ صحافی ہیں'

سینئر صحافی اور نیوز پورٹل 'وی این آئی' کے ایڈیٹر اور دہلی یونین آف ورکنگ جرنلسٹس کے ایگزیکٹو کمیٹی کے رکن ایم ودود ساجد نے پولیس کارروائی کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا کہ وِنود دُوا کو بھارت میں ٹی وی صحافت یا الیکٹرونک میڈیا کے بانیوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ وہ ایک بے داغ صحافی ہیں اور حق بات کہنے میں انہیں کوئی خوف نہیں ہے۔ جب ایسے صحافیوں کے خلاف کارروائی ہو سکتی ہے تو پھر کوئی بھی صحافی محفوظ نہیں ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے ودود ساجد نے کہا کہ اس حکومت سے کسی بھی قسم کی کارروائی کی توقع کی جا سکتی ہے۔ بہت سے صحافی جو میڈیا ہاؤسز سے نکل کر باہر آئے ہیں اور سوشل میڈیا پر آواز بلند کر رہے ہیں حکومت ان کی آواز دبانا چاہتی ہے۔ وِنود دُوا کے خلاف کارروائی اس آزادی پر حملہ ہے جو آئین و قانون کے منافی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ کہ عوام کی آخری امید عدلیہ ہوتی ہے مگر اب اس سے بھی انصاف کی کوئی توقع نہیں ہے۔

گنگا و جمنا کے پانی میں کھڑے ہو کر احتجاج

اُدھر فتح پور میں ایک درجن سے زائد صحافیوں نے دو روز دریائے گنگا و جمنا کے پانی میں کھڑے ہو کر پولیس کارروائی کے خلاف احتجاج کیا۔

مبصرین کے مطابق جہاں تک دہلی فسادات کا تعلق ہے تو پولیس نے درج کیے گئے لگ بھگ 800 مقدمات میں متعدد الزامات عائد ہیں جن میں سی اے اے مخالف احتجاج کرنے والے مظاہرین کو فسادات کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا اور مبینہ اشتعال انگیز تقریریں کرنے والے بی جے پی رہنماؤں کا ذکر نہیں کیا گیا۔

انسانی حقوق کے کارکنوں کے خیال میں پولیس کی چارج شیٹ مسلمانوں کے خلاف یک طرفہ کارروائی ہے۔

دوسری طرف سی اے اے مخالف تحریک میں سرگرم رہنے والی جامعہ ملیہ اسلامیہ کی ریسرچ اسکالر صفورہ زرگر کی ضمانت پر رہائی کی درخواست عدالت نے منظور نہیں کی۔ صفورہ زرگر چار ماہ کی حاملہ بھی ہیں۔ پولیس نے اُن پر فساد بھڑکانے کا الزام لگایا ہے۔ انہیں تہاڑ جیل میں رکھا گیا ہے جب کہ اُن پر انتہائی خطرناک قانون یو اے پی اے لگایا گیا ہے۔

  • 16x9 Image

    سہیل انجم

    سہیل انجم نئی دہلی کے ایک سینئر صحافی ہیں۔ وہ 1985 سے میڈیا میں ہیں۔ 2002 سے وائس آف امریکہ سے وابستہ ہیں۔ میڈیا، صحافت اور ادب کے موضوع پر ان کی تقریباً دو درجن کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ جن میں سے کئی کتابوں کو ایوارڈز ملے ہیں۔ جب کہ ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں بھارت کی کئی ریاستی حکومتوں کے علاوہ متعدد قومی و بین الاقوامی اداروں نے بھی انھیں ایوارڈز دیے ہیں۔ وہ بھارت کے صحافیوں کے سب سے بڑے ادارے پریس کلب آف انڈیا کے رکن ہیں۔  

XS
SM
MD
LG