رسائی کے لنکس

'عدالت کو اسکینڈلائز' کرنے پر چیئرمین پیمرا کو توہین عدالت کا نوٹس


جسٹس اطہر من اللہ نے توہین عدالت کیس کی سماعت کے دوران کہا کہ پیمرا کے پاس ڈائریکٹو جاری کرنے کا کوئی اختیار نہیں کہ وہ کہے کہ کون پروگرام میں شرکت کرے گا اور کون نہیں۔
جسٹس اطہر من اللہ نے توہین عدالت کیس کی سماعت کے دوران کہا کہ پیمرا کے پاس ڈائریکٹو جاری کرنے کا کوئی اختیار نہیں کہ وہ کہے کہ کون پروگرام میں شرکت کرے گا اور کون نہیں۔

اسلام آباد ہائی کورٹ نے ٹی وی اینکرز کو ایک دوسرے کے شوز میں شرکت نہ کرنے سے متعلق پاکستان الیکٹرانک ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا) کے جاری ہدایت نامے میں عدالت کا نام استعمال کرنے پر چیئرمین پیمرا کو توہین عدالت کا نوٹس جاری کرتے ہوئے تحریری جواب طلب کرلیا ہے۔

چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ جسٹس اطہر من اللہ نے توہین عدالت کیس کی سماعت کی۔ اس موقع پر ٹی وی اینکرز حامد میر، محمد مالک اور چیئرمین پیمرا سلیم بیگ عدالت میں پیش ہوئے۔

سماعت کے آغاز پر جسٹس اطہر من اللہ نے چیئرمین پیمرا پر شدید برہمی کا اظہار کیا اور کہا کہ "آپ نے عدالت کا نام استعمال کر کے ٹی وی چینلز کے لیے ہدایات جاری کیں، کیا آپ کو نوٹی فکیشن جاری کرنے کا حکم حکومت نے دیا تھا؟

چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ پیمرا کے پاس ڈائریکٹو جاری کرنے کا کوئی اختیار نہیں کہ وہ کہے کہ کون پروگرام میں شرکت کرے گا اور کون نہیں۔ کیا اتھارٹی اس بات کا فیصلہ کرے گی کہ کس کا کردار اچھا ہے اور وہ ٹی وی پر آ سکتا ہے؟

یاد رہے کہ پیمرا نے 27 اکتوبر کو ٹی وی چینلز کے لیے ایک ہدایت نامہ جاری کیا تھا جس میں ٹی وی اینکرز کو ایک دوسرے کے ٹاک شوز میں رائے دینے سے روکا گیا تھا۔

چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے چیئرمین پیمرا سے کہا کہ یہ نہ کہیں کہ ہم عدالتی حکم پر نوٹی فکیشن جاری کر رہے ہیں، حکم جاری کرنا وفاقی حکومت کا کام ہے۔ اگر وفاقی حکومت نے پیمرا کو حکم دیا تو وہ ہمیں بتا دیں۔

چیئرمین پیمرا سلیم بیگ نے کہا کہ ہم نے صرف عدالت میں زیر سماعت معاملے کے حوالے سے ڈائریکٹو جاری کیا تھا۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے چیئرمین پیمرا سلیم بیگ پر شدید اظہار برہمی کیا۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے چیئرمین پیمرا سلیم بیگ پر شدید اظہار برہمی کیا۔

فاضل جج نے ریمارکس میں کہا کہ "چیئرمین پیمرا صاحب آپ کے کام نہ کرنے کی وجہ سے معاملات عدالت میں آتے ہیں، ایگزیکٹو ادارے اپنا کام نہیں کرتے اور پھر بات عدالت میں آتی ہے، عدالت کوئی آرڈر پاس کر دے پھر اُسے ہمارے خلاف ہی استعمال کیا جاتا ہے۔"

جسٹس اطہر من اللہ نے چیئرمین پیمرا سے استفسار کیا "مجھے قانون سے بتائیں کس قانون کے تحت پیمرا کوئی ڈائریکٹو جاری کر سکتا ہے؟۔

انہوں نے مزید کہا کہ انتظامیہ ذمہ داری نہیں لیتی، عدالتی حکم کا انتظار کرتی ہے اور جب عدالت حکم دیتی ہے تو اس کا غلط استعمال کیا جاتا ہے۔

چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے چیئرمین پیمرا سلیم بیگ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ نے بادی النظر میں توہین عدالت کی ہے۔ آپ کا کام ہے آزادی اظہار کو آگے بڑھائیں نہ کہ اس کو روکیں۔

جسٹس اطہر من اللہ نے مزید کہا کہ اس عدالت کے نام پر حکم جاری کیا گیا آپ ہمیں مطمئن کریں۔

چیئرمین پیمرا سے تحریری جواب طلب

عدالت نے چیئرمین پیمرا کو توہین عدالت کا نوٹس جاری کرتے ہوئے تحریری جواب طلب کر لیا۔ جسٹس اطہر من اللہ نے حکم دیا کہ تحریری طور پر جواب دیں کہ عدالت کو اس نوٹی فکیشن میں کیوں گھسیٹا گیا۔

سماعت کے دوران نواز شریف کی ضمانت کے بعد ٹی وی پروگرام میں ہونے والوں تبصروں کا ذکر آنے پر جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ اگر کوئی کہے کہ ڈیل ہو گئی اور پیسے چل گئے تو وہ مجھ پر نہیں اس عدالتی کارروائی پر اثر انداز ہونے کی کوشش ہے۔ آپ اس بات پر شوکاز نوٹس جاری کر سکتے ہیں۔

چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے کہا کہ زیر سماعت مقدمات پر ٹی وی پروگرامز میں گفتگو ہوتی ہے جس پر چیئرمین پیمرا سلیم بیگ نے کہا کہ ہم نے ایسے ٹی وی چینلز کے لائسنس منسوخ کیے ہیں۔

'میڈیا پر غیر اعلانیہ سینسر شپ ہے'

جسٹس اطہر من اللہ نے ہدایت دی کہ جو پیمرا قانون کے خلاف جاتا ہے، آپ اب ایسے چینلز کے لائسنس منسوخ کریں۔ آپ کو قانون نے بہت اختیارات دیے ہیں، آپ اس کے تحت کارروائی کریں۔

ٹی وی اینکر محمد مالک نے اس موقع پر کہا کہ یہ نہ ہو کہ اب پیمرا ٹی وی چینلز کو جاری نوٹسز کے بعد سزائیں بھی دینا شروع کر دیں۔

دوران سماعت ٹی وی اینکر حامد میر نے عدالت کو بتایا کہ غیر اعلانیہ سینسر شپ لگی ہوئی ہے، ایک فون کال یا واٹس ایپ کے ذریعے میسج آتا ہے کہ کس کو دکھانا ہے اور کس کو نہیں۔

جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ ہر نجی ادارہ اپنی ذمہ داری نبھائے گا تو معاملات ٹھیک ہوں گے۔

XS
SM
MD
LG