شام میں تشدد کی صورتِ حال پر نظر رکھنے والی برطانوی تنظیم 'سیرین آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس' نے شدت پسند تنظیم داعش پر شام میں گزشتہ دو ماہ کے دوران 700 سے زائد قیدیوں کو موت کے گھاٹ اتارنے کا الزام عائد کیا ہے۔
آبزرویٹری نے بدھ کو اپنے ایک بیان میں دعویٰ کیا ہے کہ قتل کیے جانے والے قیدی ان 1350 عام شہریوں اور جنگجووں میں شامل تھے جنہیں داعش نے اپنے زیرِ قبضہ شام کی مشرقی سرحدی پٹی میں یرغمال بنا رکھا تھا۔
شام میں دریائے فرات کے مشرق سے عراق کی سرحد تک کا پٹی نما علاقہ شام اور عراق کے ان چند آخری مقامات میں سے ہے جو تاحال داعش کے قبضے میں ہیں۔ لیکن یہ علاقہ بھی تیزی سے شدت پسند تنظیم کے کنٹرول سے نکل رہا ہے۔
علاقے کو داعش سے چھڑانے کے لیے امریکہ کی حمایت یافتہ ملیشیائیں رواں ماہ ہی علاقے میں واقع ایک اہم قصبے حجین میں داخل ہوئی تھیں۔
شام میں مقامی ملیشیاؤں کے اتحاد 'سیرین ڈیموکریٹک فورسز'کے جنگجو گزشتہ کئی ماہ سے اس علاقے میں داعش کے خلاف کارروائیاں کر رہے ہیں جس میں انہیں امریکہ کے جنگی طیاروں کے علاوہ اسپیشل فورسز کے اہلکاروں کی مدد بھی حاصل ہے۔
'سیرین ڈیموکریٹک فورسز' کی قیادت شامی کرد ملیشیا 'وائی پی جی' کے پاس ہے جو داعش کے خلاف شام میں امریکہ کی اہم اتحادی ہے۔
'ایس ڈی ایف' کے کمانڈر ان چیف مظلوم کوبانی نے گزشتہ ہفتے برطانوی خبر رساں ادارے 'رائٹرز' کو بتایا تھا کہ علاقے میں داعش کے کم از کم پانچ ہزار جنگجو موجود ہیں جن میں کئی غیر ملکی بھی شامل ہیں۔
کوبانی نے کہا تھا کہ بظاہر لگتا ہے کہ علاقے میں موجود داعش کے بیشتر غیر ملکی جنگجو ہتھیار ڈالنے کے بجائے مارے جانے تک لڑنے کے لیے پرعزم ہیں۔
امریکہ کی سربراہی میں قائم بین الاقوامی اتحاد کے فضائی حملوں اور برسرِ زمین اس اتحاد کی حمایت یافتہ ملیشیاؤں کی کارروائیوں کے نتیجے میں گزشتہ ایک سال کے دوران داعش کو شام اور عراق میں تیزی سے پسپا ہونا پڑا ہے۔
ان کارروائیوں کے باعث شدت پسند تنظیم ان بیشتر علاقوں سے محروم ہوچکی ہے جس پر اس نے قبضہ کرلیا تھا اور انہیں اپنی خود ساختہ خلافت کا حصہ قرار دیا تھا۔
لیکن شام اور عراق کی سرحدی پٹی کے بعض صحرائی علاقے اب بھی داعش کے کنٹرول میں ہیں جہاں سے جنگجو دیگر علاقوں پر حملے کرتے رہتے ہیں۔