رسائی کے لنکس

مراکش کا بھی اسرائیل سے تعلقات قائم کرنے کا اعلان


اسرائیل کے وزیرِ اعظم نے تعلقات کے قیام کی پیش رفت کو 'امن کے لیے ایک اور روشنی' قرار دیا۔
اسرائیل کے وزیرِ اعظم نے تعلقات کے قیام کی پیش رفت کو 'امن کے لیے ایک اور روشنی' قرار دیا۔

ایک اور مسلم اکثریتی ملک مراکش نے بھی اسرائیل کو باقاعدہ تسلیم کرنے اور تعلقات قائم کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔

امریکہ کی معاونت سے مراکش اور اسرائیل نے ایک دوسرے کو تسلیم کرنے کا اعلان کیا۔

قبل ازیں تین دیگر عرب ممالک بحرین، سوڈان اور متحدہ عرب امارات (یو اے ای) حالیہ چند ماہ کے دوران اسرائیل سے تعلقات قائم کرنے کا اعلان کر چکے ہیں۔

امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جمعرات کو ٹوئٹر پر اسرائیل اور مراکش میں ہونے والے معاہدے کا اعلان کیا۔

انہوں نے اسے مشرق وسطیٰ میں قیامِ امن کی جانب ایک تاریخی اور بڑی پیش رفت کے ساتھ ساتھ خطے میں ان کی سفارت کاری کا تسلسل قرار دیا، جسے 'معاہدۂ ابراہم' کا نام دیا جاتا ہے۔

اسرائیل کے وزیرِ اعظم بن یامین نیتن یاہو نے یہودیوں کے تہوار 'ہنوکا' کی آمد پر خیرمقدم کرتے ہوئے شمالی افریقہ کی مملکت سے تعلقات کے قیام کی جانب پیش رفت کو 'امن کے لیے ایک اور روشنی' قرار دیا۔

نیتن یاہو کا کہنا تھا کہ وہ ممالک کے درمیان براہِ راست پروازوں اور سفارتی مشن بھیجنے کی قیادت کر سکتے ہیں۔

مراکش کے بادشاہ محمد ششم نے صدر ٹرمپ سے جمعرات کو ٹیلی فون پر گفتگو کی۔ اس گفتگو میں انہوں نے اسرائیل سے سیاحوں کی آمد کے لیے دو طرفہ براہِ راست پروازوں کے آغاز کی تصدیق کی۔

'اسرائیل متحدہ عرب امارات کو اپنا مخالف نہیں سمجھتا'
please wait

No media source currently available

0:00 0:02:29 0:00

معاہدے کے تحت امریکہ نے پورے 'مغربی صحارا' پر مراکش کی حکمرانی کو تسلیم کیا ہے۔ اس خطے پر کسی زمانے میں اسپین کی حکمرانی تھی۔ طویل عرصے سے اس علاقے کی حکمرانی کا تنازع چل رہا ہے۔ تاہم مراکش اس خطے کو اپنا 'جنوبی صوبہ' قرار دیتا ہے۔

بین الاقوامی مذاکرات کاروں کی کوشش کے باوجود یہ تنازع حل نہیں ہو سکا ہے۔

مراکش کی شاہی عدالت نے کہا ہے کہ معاہدے کے تحت واشنگٹن مغربی صحارا میں اپنا قونصل خانہ قائم کرے گا۔

دوسری جانب مراکش کے پڑوسی ملک الجزائر کے جنوب میں موجود عسکریت پسند گروہ 'پولیساریو فرنٹ' مغربی صحارا کی آزادی کی جنگ میں مصروف ہے۔

پولیساریو فرنٹ کے یورپ کے لیے ترجمان اوبی بچرایا نے تحریک کی جدوجہد جاری رہنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس سے مغربی صحارا کے لوگوں کے حقِ خود ارادیت اور تنازع کی حقیقت میں ایک انچ بھی تبدیلی نہیں آئے گی۔

'عرب ممالک کا اسرائیل کو تسلیم کرنا اُن کی مجبوری ہے'
please wait

No media source currently available

0:00 0:05:34 0:00

مغربی صحارا کے حوالے سے واشنگٹن کے اعلان پر سفارت کار حیرت کا شکار ہیں۔

اقوامِ متحدہ کے ترجمان اسٹیفن ڈوجیرک نے صحافیوں کو بتایا کہ بین الاقوامی ادارے کو بھی باقی دنیا کی طرح ڈونلڈ ٹرمپ کی ٹوئٹ کے ذریعے اس پیش رفت کا علم ہوا۔

مغربی صحارا کی حاکمیت کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ اقوامِ متحدہ کے سیکرٹری جنرل کا مؤقف اس معاملے پر تبدیل نہیں ہوا۔ اس معاملے کا حل سلامتی کونسل کی قراردادوں کے تحت ہونا چاہیے۔

مغربی صحارا کے لوگوں کے لیے پیغام کے سوال پر ان کا کہنا تھا کہ کسی بھی ایسے اقدام سے دور رہنا ہو گا جس سے تناؤ کی صورتِ حال مزید بدتر ہو جائے۔

صدر ٹرمپ کے سینئر مشیر اور داماد جیراڈ کشنر نے وائس آف امریکہ کے اس سوال کا کہ آیا اقوامِ متحدہ سمیت دیگر مقامات پر موجود سفارت کاروں سے مراکش کی اس خطے پر حکمرانی تسلیم کرنے کے اقدام پر مشورہ کیا گیا تھا؟ براہِ راست جواب نہیں دیا۔

وائٹ ہاؤس میں صحافیوں سے کانفرنس کال کے ذریعے گفتگو میں جیراڈ کشنر کا کہنا تھا کہ امریکہ چاہتا ہے کہ پولیساریو افراد کو بھی بہتر زندگی گزارنے کے مواقع میسر آئیں۔

اسرائیل کو تسلیم کرنے سے پاکستان کو فائدہ ہوگا یا نقصان؟
please wait

No media source currently available

0:00 0:03:44 0:00

اُن کا مزید کہنا تھا کہ صدر ٹرمپ محسوس کر رہے تھے کہ اس تنازع سے پولیساریو افراد آگے بڑھنے کی بجائے پیچھے جا رہے ہیں۔

ٹرمپ انتظامیہ کے حکام پہلے ہی پیش گوئی کر چکے تھے کہ مزید ممالک اسرائیل کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کا اعلان کر سکتے ہیں۔

صحافیوں سے گفتگو میں جیراڈ کشنر نے مزید کہا کہ ان کوششوں کے ثمرات جلد سامنے آ گئے ہیں۔ امید ہے کہ مزید ثمرات مختصر، درمیانی اور طویل المدت میں سامنے آئیں گے۔

جیراڈ کشنر نے خصوصی طور پر سعودی عرب کا نام لے کر اس کے اسرائیل کے ساتھ تعلقات کے قیام کو بھی لازم قرار دیا۔

صدر ٹرمپ کا ذکر کرتے ہوئے جیراڈ کشنر کا کہنا تھا کہ گزشتہ 4 برسوں میں انہوں نے کوئی جنگ شروع نہیں کی۔ انہوں نے جنگوں کا خاتمہ کیا۔

یہ بھی پڑھیے

XS
SM
MD
LG