رسائی کے لنکس

ڈی جی آئی ایس آئی مقدمے کے سلسلے میں دو بار جسٹس شوکت صدیقی کے گھر گئے، وکیل


پاکستان کی سپریم کورٹ کا ایک بینچ سابق جسٹس شوکت صدیقی کی اپنی برطرفی کے خلاف درخواست کی سماعت کر رہا ہے۔
پاکستان کی سپریم کورٹ کا ایک بینچ سابق جسٹس شوکت صدیقی کی اپنی برطرفی کے خلاف درخواست کی سماعت کر رہا ہے۔

سپریم کورٹ آف پاکستان میں جسٹس شوکت عزیز صدیقی کیس کی سماعت کے دوران شوکت عزیز صدیقی کے وکیل حامد خان نے انکشاف کیا کہ ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹننٹ جنرل فیض حمید دو دفعہ جسٹس شوکت عزیز صدیقی کے گھر آئے۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ آپ نے آئی ایس آئی کے سامنے مزاحمت کی لیکن وہ تمام باتیں عام پبلک میں جا کر بیان کر دیں۔

سپریم کورٹ میں جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی۔

کیس کی سماعت کے دوران جسٹس شوکت عزیز صدیقی کے وکیل حامد خان نے کہا کہ سپریم جوڈیشل کونسل جج کے خلاف انکوائری کرنے کا اختیار رکھتی ہے جج کو فارغ نہیں کر سکتی۔ جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے شوکاز نوٹس کا جواب دیا تھا۔

وکیل حامد خان نے کہا کہ سپریم جوڈیشل کونسل کو تمام ریکارڈ اور شہادتوں کا جائزہ لینا ہوتا ہے۔ میرے مؤکل کو شوکاز نوٹس جاری کر کے عہدے سے ہٹا دیا گیا۔ شوکت عزیز صدیقی کو ہٹانا بدنیتی ہے۔

انہوں نے بتایا کہ جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے اپنے شوکاز نوٹس کے جواب میں کہا آئی ایس آئی ہیڈکوارٹر کے باہر گرین بیلٹ سے متعلق ان کا جو حکم نامہ تھا اس کے بارے میں آئی ایس آئی کے بریگیڈئیر عرفان رامے ان کے گھر آئے اور یہ حکم نامہ واپس لینے کا کہا۔ ان کے انکار پر انہوں نے ناراضی کا اظہار کیا۔ تاہم اس کے دو روز بعد ڈی جی آئی ایس آئی فیض حمید ان کے گھر آئے اور کہا کہ وہ قانونی راستے سے اس معاملے کا حل نکالیں گے۔

جسٹس شوکت عزیز صدیقی۔ فائل فوٹو
جسٹس شوکت عزیز صدیقی۔ فائل فوٹو

شوکت عزیز صدیقی کے وکیل نے کہا کہ جنرل فیض حمید نے پاناما کیس پر بھی اثرانداز ہونے کی کوشش کی۔ ان کا کہنا تھا کہ لیفٹننٹ جنرل فیض حمید نے مجھ سے سوال کیا کہ پانامہ کیس میں آپ کیا فیصلہ کریں گے۔ اس پر میں نے کہا کہ آئین اور قانون کے مطابق جو فیصلہ ہو گا وہی کرتا۔ اس پر جنرل فیض حمید نے کہا کہ ایسے تو ہماری دو سال کی محنت ضائع ہو جائے گی۔( جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے ایسے ہی الفاظ راول پنڈی میں اپنے خطاب کے دوران بھی کہے تھے)۔

اس پر جسٹس عمر عطابندیال نے کہا کہ تعجب ہے کہ آپ سے ڈی جی آئی ایس آئی نے ایسی بات کی۔ آپ نے آئی ایس آئی کے سامنے تو مزاحمت دکھائی لیکن پھر بعد میں عوامی مقام پر جا کر بند کمرے میں ہوئی ساری باتیں دوہرا دیں اور ادارے کے بارے میں تحقیر آمیز الفاظ کا چناؤ کیا۔ آپ کو اپنے اداروں کے تخفظ کے لیے بھی مزاحمت دکھانی چاہیے تھی۔ آپ کو غصہ آئی ایس آئی پر تھا اور آپ نے تضحیک عدلیہ کی کی۔ آپ کو اپنے ادارے کے تحفظ کے لیے کام کرنا چاہئے تھا۔ ان اداروں کا سوچیں جو عدلیہ کے تحفظ کے لیے کام کرتے ہیں۔

حامد خان نے کہا کہ بار بھی عدلیہ کی حفاظت کے لیے کام کرتی ہے۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ معذرت کے ساتھ بار کی اپنی ایک پالیسی ہے جس کے تحت وہ کام کرتا ہے۔ مانتے ہیں کہ بار ججز کی معاونت کے لیے ہمیشہ موجود ہے۔ بار کی تنقید کی وجہ سے جسٹس اقبال حمید الرحمان نے استعفی دیا۔ یہ بات بھی درست ہے کہ بار کئی بار جذباتی ہو جاتا ہے۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے جسٹس شوکت عزیز صدیقی کو کہا کہ آپ کسی اور بات سے ناخوش اور پریشان تھے اور آپ نے اپنے ادارے اور چیف جسٹس کی تضحیک کر دی۔ آپ خود تسلیم کر رہے ہیں کہ آپ کی ڈی جی آئی ایس آئی سے ملاقاتیں ہوئیں۔ آپ دو بار ان سے ملے۔ آپ کے ان سے تعلقات تھے۔

ان جملوں کے دوران جسٹس شوکت عزیز صدیقی نشست پر کھڑے ہو گئے اور کہا کہ میرے فوج میں کسی سے کوئی تعلقات نہیں ہیں۔ ہر طرح کے خطرات کے باوجود میں اپنے خاندان کے ساتھ اسلام آباد میں مقیم ہوں۔

اسلام آبا ہائی کورٹ کی عمارت کا ایک منظر۔ فائل فوٹو
اسلام آبا ہائی کورٹ کی عمارت کا ایک منظر۔ فائل فوٹو

جسٹس عمر عطا نے شوکت عزیز صدیقی سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ آپ ایک دیانتدار شخص ہیں۔

جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے کہا کہ میں نے تقریر پریشر کم کرنے کیلئے کی، بدقسمتی سے میں دسمبر 2015 سے پریشر میں ہوں۔

جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے سابق چیف جسٹسز پر الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ بقول ان کے سابق چیف جسٹس ثاقب نثار اور جسٹس آصف سعید کھوسہ تو چاہتے ہی مجھے نکالنا تھے۔ اس پر جسٹس عمر عطابندیال نے انہیں بات کرنے سے روک دیا اور کہا کہ ہم آپ کی تقریر نہیں سننا چاہتے۔ آپ نے تو نام گنوانے شروع کر دیئے ہیں۔

اس دوران شوکت عزیز صدیقی بات کرنا چاہ رہے تھے لیکن جسٹس عمر عطا بندیال نے سماعت ملتوی کرنے کا حکم دے دیا جس کے بعد بینچ کھڑا ہو گیا اور جسٹس شوکت عزیز اپنی بات مکمل نہ کر سکے۔

جسٹس شوکت عزیز صدیقی کیس کا پس منظر

جسٹس شوکت عزیز صدیقی اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج تھے اور اپنے سخت بیانات کی وجہ سے جانے جاتے تھے۔ لیکن 21 جولائی 2018کو راول پنڈی ڈسٹرکٹ بار ایسویسی ایشن کے اجلاس میں ایک تقریر کے دوران انہوں نے پاکستان کے انٹیلی جنس ادارے آئی ایس آئی پر سخت تنقید کی اور الزام عائد کیا کہ ان پر ادارہ کی طرف سے فیصلوں کے لیے دباؤ ڈالا جاتا ہے۔

اس بارے میں اعلیٰ عدلیہ نے آئین کے آرٹیکل 209 کے تحت سپریم جوڈیشل کونسل کی سفارش پر انہیں بطور جج ہٹا دیا تھا۔

جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے اس بارے میں سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی لیکن کئی بار ان کی اپیل عدالت میں نہ لگ سکی۔

اپیل کی سماعت تاخیر سے ہونے پر انہوں نے چیف جسٹس کو جلد سماعت کے لیے درخواست بھی دائر کی لیکن جسٹس شوکت عزیز صدیقی کا کیس کئی مرتبہ ڈی لسٹ ہوا جس کے بعد حالیہ دنوں میں جسٹس شوکت عزیز صدیقی کیس کی سماعت ہوئی ہے اور امکان ہے کہ جلد اسے مکمل کر لیا جائے گا۔

جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے الزام عائد کیا تھا کہ ان کے ریٹائر ہونے کا انتظار کیا جا رہا ہے تاکہ وہ دوبارہ جج کا عہدہ نہ سنبھال سکیں۔

XS
SM
MD
LG