رسائی کے لنکس

امریکہ کے نایاب گنجے عقاب کے پروں اور دم پرشکاریوں کی نظرکیوں؟


Bald Eagle یا گنجا عقاب۔ فائل فوٹو
Bald Eagle یا گنجا عقاب۔ فائل فوٹو

امریکہ کی ریاست مونٹانا میں ایک عجیب واردات سامنے آئی جس کے نتیجے میں گرینڈ جیوری کی طرف سے دو افراد کے خلاف عائدفرد جرم میں بتایا گیا ہے کہ مونٹانا کے علاقے فلیٹ ہیڈ انڈین ریزرویشن اور کچھ دیگر مقامات پر تقریباً 3,600 پرندے مار ڈالے گئے جن میں گنجے اور سنہری عقاب بھی شامل تھے۔

بالڈ اور گولڈن ایگل سمیت یہ پرندے نایاب ہیں اس لئے انہیں خصوصی تحفظ بھی حاصل ہے۔ اس کیس میں عقابوں کےمختلف اعضا کو بلیک مارکیٹ میں فروخت کر دیا گیاتھا۔ ایسے پرندوں کا شکار اور ان کی چوری امریکی وائلڈ لائف حکام کے لیے ایک طویل عرصے سے مسئلہ ہے۔

فرد جرم کے مطابق ان دو نوں ملزموں نے پرندوں کا شکار کرنے کے لیے دوسروں لوگوں کے ساتھ کام کیا اور کم از کم ایک مثال تو ایسی بھی ہے جہاں عقاب کو لالچ دینے کے لیے ایک مردہ ہرن کو استعمال کیا گیا اور بعد میں اس عقاب کا شکار کر لیا گیا۔

فرد جرم میں کہا گیا کہ دونوں نے دوسرے لوگوں کے ساتھ مل کر سازش کی کہ عقاب کے پروں ، دم اور دوسرے حصوں کو امریکہ اور دوسری جگہوں پر ’نقد رقم‘کے عوض فروخت کریں گے۔ سازش میں ان کے ساتھ شریک دوسرے افراد کے نام نہیں بتائے گئے۔

ریاست مونٹانا کے مقام سینٹ اگ نیٹئیس سے تعلق رکھنے والے 42 سالہ سائمن پال اور ریاست واشنگٹن کے کوسیک شہر کے مکین 48 سالہ ٹریوس جان برینسن کو گنجے اور سنہری عقابوں کی غیر قانونی اسمگلنگ کے 13 اور جنگلی حیات کی اسمگلنگ کے قوانین کی خلاف ورزی پر ایک ایک فردجرم کا سامنا ہے۔

تفتیش کاروں نے ان دونوں افراد کے ٹیکسٹ پیغامات سے معلوم کیا کہ برینسن اور اس کے ساتھ شریک افراد خریداروں کو یہ بتاتے تھے کہ وہ مستقبل میں فروخت کی غرض سے عقابوں کی دمیں اور پر جمع کرنے کے لیے مزید شکار کریں گے۔ اس فرد جرم میں پال کو برینسن کے لیے کام کرنے والا ’شوٹر‘ قرار دیا گیا ہے۔

فرد جرم میں کہا گیا ہے کہ ریاست مونٹانا کے مقام رونن کے قریب ان پرندوں کو ہلاک کرنے کا آغاز جنوری 2015 میں ہوا اور 2021 تک جاری رہا۔ فرد جرم میں یہ نہیں بتایا گیا کہ شکار کیے گئے ان 3,600 پرندوں میں سے عقابوں کی تعداد کتنی تھی۔

ایک حالیہ سرکاری تحقیق کے مطابق گولڈن ایگل کی موت کی سب سے بڑی وجہ ان کا غیر قانونی شکار ہے۔ قدرتی وسائل کے محکمے میں (امریکہ کے قدیم باشندوں کے ) قبائل کے ڈائریکٹر رچ جانسن نے کہا کہ ’’ہم صرف امید کر سکتے ہیں کہ اگر یہ افراد مجرم ثابت ہو جاتے ہیں تو یہ دوسروں کے لیے ایک سبق ہوگا۔‘‘

انہوں نے کہا کہ ان قبائل کے ارکان عقاب کے پروں کو اپنے لباس اور اعزازی تقریبات میں روایتی طور پر استعمال کرتے ہیں۔

پال اور برینسن کی تحقیقات میں قبائلی قانون نافذ کرنے والے ادارے بھی شامل تھے، لیکن ڈائریکٹر رچ جانسن کو یہ معلوم نہیں تھا کہ ان پر الزامات عائد کرنے میں اتنی دیر کیوں لگ گئی۔

امریکہ کی قومی علامت گنجے عقاب ہیں اور گنجے اور سنہری عقاب کی اقسام کو امریکی قدیم باشندے مقدس سمجھتے ہیں۔ امریکی قانون کے تحت کسی کو بھی اجازت نامے کے بغیر عقابوں کا شکار کرنے، انہیں زخمی کرنے یا ڈرانے کی ممانعت ہے۔ اس کے علاوہ ان کے گھونسلوں یا انڈوں کو بھی اٹھانا منع ہے۔ اس قانون کے تحت جنگل میں پائے جانے والے پروں پر قبضہ کرنا بھی جرم کے زمرے میں آ سکتا ہے۔

نارتھ کیرولائنا میں ایک بالڈ ایگل کی پرواز (اے پی فوٹو)
نارتھ کیرولائنا میں ایک بالڈ ایگل کی پرواز (اے پی فوٹو)

وفاقی طور پر تسلیم شدہ قبائل اپنے مذہبی مقاصد کے لیے گنجے یا سنہری عقاب حاصل کرنے کے لیے یو ایس فش اینڈ وائلڈ لائف سروس سے اجازت نامے کی درخواست دے سکتے ہیں۔

اندراج شدہ قبائلی اراکان نیشنل ایگل ریپازیٹری سے عقاب کے پر اور دیگر حصوں کے حصول کے لیے درخواست دے سکتے ہیں۔ لیکن جانسن اور عقابوں کے بارے میں تحقیق کرنے والے دو ماہرین کے مطابق ان چیزوں کے حصول کے لئے درخواستوں کا ایک طویل سلسلہ ہےجس پر کام ہونا باقی ہے۔

یہ ماہرین کہتے ہیں کہ اجازت کے حصول کے لئے دی گئی درخواستوں کے جواب میں تاخیرکے نتیجے میں عقاب کے مختلف حصوں کے لیے بلیک مارکیٹ کا سہارا لیا جا سکتا ہے۔

وایومنگ کے مقام ولسن میں ٹیٹن ریپٹر سینٹر سے وابستہ تحقیق کار برائن بیڈروسیئن کہتے ہیں کہ نوجوان سنہری عقابوں کے پروں کی خاص طور پر زیادہ مانگ ہوتی ہے اور انہیں ذخیرے سے حاصل کرنے کے لیے پانچ سال تک انتظار کرنا پڑتا ہے۔ بدقسمتی سے اس صورتحال سے ان غیر قانونی سر گرمیوں کو تقویت ملی ہے۔

مونٹانا کے مسولا شہر میں ریپٹر ویو ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر روب ڈومینیک کا کہنا ہے کہ اس نوعیت کی تاخیر سے نمٹنے کی صورت میں یہ ممکن ہے کہ عقاب کی غیر قانونی تجارت کو کم کرنے میں مدد ملے۔

آئے اووا میں گنجا عقاب (اے۔پی فوٹو)
آئے اووا میں گنجا عقاب (اے۔پی فوٹو)

روب ڈومینیک کہتے ہیں کہ جس علاقے میں مبینہ طور پر پرندوں کا شکار کیا گیا وہاں عقابوں اور دیگر بڑے شکاری پرندوں کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔ ان میں ہاکس ،عقاب اور دوسرے پرندے شامل ہیں جو شمال سے موسم سرما میں فلیٹ ہیڈ کے علاقے میں ہجرت کرتے ہیں۔

امریکہ کےفش اینڈ وائلڈ لائف حکام نے قبائل کی جانب سے اجازت نامے کی درخواستوں میں تاخیر سے متعلق سوالات کا فوری جواب نہیں دیا۔ اس مقدمے کی کارروائی مونٹانا یو ایس اٹارنی جیسی لاسلووچ کا دفتر کر رہا ہے۔ ان کے ترجمان نے فرد جرم میں بتائی گئی تفصیل کے علاوہ مزید کوئی بیان دینے سے انکار کر دیا۔

امریکہ کے بیشتر حصوں میں گزشتہ صدی کے دوران گنجے عقاب کیڑے مار دوا ڈی ڈی ٹی کی وجہ سے ہلاک ہوئے تھے۔ لیکن بعد میں وفاقی تحفظ کے تحت ان کی تعداد میں اضافہ ہوا اور 2007 میں خطرے سے دوچار اقسام کی فہرست سے باہر آ گئے۔ حالیہ برسوں میں ان کی آبادی میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔

گولڈن ایگل کی آبادی کم محفوظ ہے اور محققین کا کہنا ہے کہ اس کے شکار، لیڈ پوائزننگ اور دیگر مسائل نے اس کی اقسام کو معدوم ہونے کے خطرے سے دوچار کر دیا ہے۔

امریکہ میں ایک اندازے کے مطابق گنجے عقابوں کی تعداد 346,000 ہے جبکہ سنہری عقاب تقریباً 40,000 ہیں جنہیں زندہ رہنے کے لیے وسیع علاقوں کی ضرورت ہوتی ہے اور انسانوں کا آس پاس ہونا ان کے لئے پریشانی کا باعث بنتاہے۔

گرینڈ جیوری کی فرد جرم کو گزشتہ ہفتے عام کر دیا گیا اور اس میں الزام لگایا گیا ہے کہ برینسن نے عقابوں کا شکار کرنے کے لیے ریاست واشنگٹن سے فلیٹ ہیڈ ریزرویشن تک کا سفر کیا۔

فرد جرم کے مطابق منصوبہ یہ تھا کہ جب برینسن فلیٹ ہیڈ انڈین ریزرویشن پر پہنچیں گے تو اس وقت پال فروخت کے لیے گنجے اور سنہری عقابوں کو مارنے اور انہیں بلیک مارکیٹ تک پہنچانے میں برینسن کی مدد کریں گے۔

ایسوسی ایٹڈ پریس نے بتا یا ہے کہ پال اور برینسن حراست میں ہیں اور انہیں 8 جنوری کو مسولا میں امریکی ڈسٹرکٹ کورٹ میں حاضری کے لیے سمن جاری کیا گیا ہے ۔عدالتی دستاویزات میں ان دونوں افراد کے وکیلوں کے نام شامل نہیں تھے اور درج کیے گئے ٹیلی فون نمبروں پر فوری طور پر رابطہ نہیں ہو سکا۔

اس رپورٹ کا مواد خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس سے لیا گیا ہے۔

فورم

XS
SM
MD
LG