رسائی کے لنکس

کیا سندھ کے نئے بلدیاتی نظام سے شہریوں کے مسائل حل ہوسکیں گے؟


فائل فوٹو
فائل فوٹو

سندھ اسمبلی سے منظور ہونے والا 'لوکل گورنمنٹ ترمیمی بل 2021' حتمی منظوری کے لیے گورنر سندھ کے پاس موجود ہے۔ حزبِ اختلاف کی جماعتوں نے اس بل پر اپنے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے اسے کالا قانون قرار دیا ہے البتہ صوبائی حکومت اس کا کھل کر دفاع کر رہی ہے۔

حکومت اور اپوزیشن کی جماعتیں ایک دوسرے پر یہ الزام بھی عائد کر رہی ہیں بلدیاتی انتخابات سے متعلق قانون پر لسانی کارڈ کھیلا جا رہا ہے۔

سوال یہ ہے کہ آخر اپوزیشن جماعتوں کو بل پر کیا اعتراضات اور حکومت کا کیا مؤقف ہے؟

حزبِ اختلاف کی جماعتوں کا کہنا ہے کہ یہ بل عجلت میں اسمبلی سے منظور کرایا گیا اور اس ضمن میں بل کو غور کے لیے اسٹینڈنگ کمیٹیوں کو بھیجنا بھی گوارا نہیں کیا گیا۔ لیکن صوبائی حکومت اپوزیشن کے ان الزامات کی تردید کرتی ہے۔

اپوزیشن جماعتوں کا خیال ہے کہ لوکل گورنمٹ ایکٹ بلدیاتی اداروں کے وسائل پر قبضہ مزید مستحکم کرنے کی ایک کوشش ہے۔

حزبِ اختلاف کی جماعت متحدہ قومی موومنٹ پاکستان (ایم کیو ایم) کے رہنما خواجہ اظہار الحسن کا کہنا ہے کہ آئین میں درج ہے کہ مقامی حکومتوں کو سیاسی، مالی اور انتظامی اختیار حاصل ہونے چاہیئں لیکن سندھ میں گزشتہ 13 سالوں سے یہ اختیارات چھینے جارہے ہیں۔

کراچی: 'فضائی آلودگی پیدائش سے قبل ہی بچوں کو متاثر کر رہی ہے'
please wait

No media source currently available

0:00 0:04:32 0:00

ان کے بقول 2001 کے بلدیاتی نظام میں 31 محکمے بلدیاتی اداروں کو منتقل کیے گئے تھے جن میں سے اب چند ایک ہی مقامی حکومتوں کے پاس ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ ایکٹ میں میئر کو واٹر بورڈ یا سالڈ ویسٹ مینجمنٹ بورڈ کا شریک چیئرمین لگانا محض دھوکہ ہے کیوں کہ ان کے پاس انتظامی اختیارات نہیں ہوں گے۔

حکومت کے پاس اعتراض کے جوابات کیا ہیں؟

صوبائی حکومت کا دعویٰ ہے کہ نئے لوکل گورنمنٹ ایکٹ میں پچھلے قوانین کے مقابلے میں کافی بہتری ہے اور اس بارے میں غلط باتیں پھیلائی جارہی ہیں۔

صوبائی وزیر بلدیات ناصر حسین شاہ کا کہنا ہے مقامی حکومتوں کے نئے قوانین میں یونین کونسلز کو ٹیکسیشن دے دی گئی ہے جس سے مقامی حکومتیں مالی طور پر مضبوط ہوں گی۔

ان کے بقول ایم کیو ایم اور جماعت اسلامی کی تجاویز کی روشنی میں میٹرو پولیٹن کارپوریشن قرار دیے جانے والے شہر میں ٹاؤنز کو بحال کیا گیا ہے۔ اسی طرح واٹر بورڈ، بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی اور سالڈ ویسٹ مینجمنٹ بورڈ میں بھی مقامی حکومتوں کو کردار ہی نہیں بلکہ اختیارات بھی دیے ہیں۔

بل اسمبلی سے منظور کرانے سے قبل مشاورت نہ کرنے کے الزامات کی نفی کرتے ہوئے ناصر حسین شاہ نے کہا کہ نئے قوانین کو اسمبلی میں لانے سے قبل حزبِ اختلاف کی تمام جماعتوں سے بامعنی مشاورت کی گئی تھی اور ان کی ترامیم کو اس میں شامل کیا گیا ہے۔

انہوں نے دعویٰ کیا کہ پولیس، صحت، تعلیم سمیت کئی محکموں میں مقامی حکومت اور صوبائی حکومت کا ربط پیدا کیا گیا ہے۔ لیکن صوبائی حکومت کے بقول اپوزیشن اسے جان بوجھ کر متنازع بنا رہی ہے۔

صوبائی حکومت کا مؤقف ہے کہ جو تعلق وفاق اور صوبائی حکومتوں کے درمیان ہوتا ہے وہ تعلق صوبائی حکومت اور مقامی حکومت سے نہیں جوڑا جا سکتا۔

'اصل مسئلہ وسائل پر قبضے کی جنگ کا ہے'

سابق ایڈمنسٹریٹر اور مقامی حکومتوں کے نظام پر کئی مضامین لکھنے والے فہیم الزمان کا کہنا ہے کہ مقامی حکومتوں کو بامعنی اختیار ملنے تک نچلی سطح کے مسائل حل ہوتے نظر نہیں آتے۔

ان کے خیال میں اصل جھگڑا سونے کی کان یعنی صوبائی دارالحکومت، تجارتی اور معاشی سرگرمیوں کے مرکز اور بندرگاہ رکھنے والے شہر کراچی کے وسائل پر قبضے کا ہے۔ ان وسائل کو صوبے میں برسر اقتدار جماعت ہو یا شہری علاقوں سے مینڈیٹ کے دعویدار، چھوڑنے کو تیار نہیں۔

کراچی غیر معمولی بارشوں کے لیے کتنا تیار ہے؟
please wait

No media source currently available

0:00 0:04:20 0:00

فہیم الزمان کے مطابق اصل مسئلے سے توجہ ہٹانے کے لیے دونوں (حکومت اور اپوزیشن) کی جانب سے لسانیت کا کارڈ کھل کر کھیلا جاتا رہا ہے۔ البتہ اس تنازع کا سارا نقصان سندھ کے شہریوں کو ہوتا ہے۔

سندھ ہائی کورٹ کے وکیل مرید علی شاہ ایڈووکیٹ مقامی حکومتوں کے اختیار سے متعلق کئی آئینی درخواستیں دائر کر چکے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ بلدیاتی قانون میں بہتری کی گنجائش موجود ہے۔

انہوں نے بتایا کہ سابق فوجی صدر جنرل پرویز مشرف کے دور میں لائے گئے 2001 کے بلدیاتی نظام کی میعاد 2009 میں مکمل ہونے کے بعد دو سال تک صوبے میں بلدیاتی حکومتوں سے متعلق کوئی قانون موجود نہیں تھا۔ اس کے بعد 2001 کے قانون میں تبدیلی لانے کے بجائے سندھ لوکل گورنمنٹ ایکٹ 1979 کا پرانا قانون 2011 میں نافذ کر دیا گیا تھا۔

بعدازاں سندھ حکومت نے کچھ تبدیلیوں کے ساتھ 2013 میں نیا قانون پاس کرایا جس کے تحت سپریم کورٹ کے احکامات کی روشنی میں 2015 میں مقامی حکومتوں کے انتخابات کرائے گئے۔

مرید علی شاہ اس خیال سے اتفاق کرتے ہیں کہ سب جماعتوں کی کوشش ہے کہ بلدیاتی نظام کو اپنے کنٹرول میں رکھا جائے تاکہ وہ انتخابات سے قبل پانی کی فراہمی، سڑکوں کو پختہ کرنے اور گلی محلوں کی صاف ستھرائی کے کام کرا کر ووٹروں کو متاثر کر سکیں۔

XS
SM
MD
LG