رسائی کے لنکس

پی ڈی ایم کا لاہور جلسہ:' تاریخ بتاتی ہے مسلم لیگ کبھی لاہور میں بڑا جلسہ نہیں کر پائی'


فائل فوٹو
فائل فوٹو

حزبِ اختلاف کی جماعتوں کے اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) اتوار کو ملک کے دوسرے سب سے بڑے شہر لاہور میں حکومت کے خلاف تحریک میں جلسہ کرنے کی بھر پور تیاری کر رہی ہے۔

سیاسی جماعتیں ایک طرف کارکنوں کو جلسے کے لے متحرک کر رہی ہیں، تو دوسری طرف یہ الزام بھی لگایا جا رہا ہے کہ کرونا وائرس کے قواعد و ضوابط کی خلاف ورزی کے الزام پر جلسے کی تیاری میں معاونت کرنے والوں کے خلاف مقدمات درج کیے جا رہے ہیں۔

حزب اختلاف کی سیاسی جماعتوں کا اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومٹ پنجاب کے صوبائی دارالحکومت لاہور کے گریٹر اقبال پارک (مینارِ پاکستان) میں حکومت مخالف جلسہ کرے گا۔

دوسری جانب وزیرِ اعظم عمران خان نے اعلان کیا ہے کہ حزبِ اختلاف کے جلسوں کو نہیں روکا جائے گا، بلکہ ان جلسوں میں سہولیات فراہم کرنے والوں کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔

جمعرات کو وزیرِ اعظم عمران خان نے حزبِ اختلاف کی سیاسی جماعتوں سے اپیل کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ اپنے جلسے دو ماہ بعد کر لیں۔ کیوں کہ اُن کے جلسوں کی وجہ سے کرونا وائرس تیزی سے پھیل رہا ہے۔

سینئر صحافی اور تجزیہ کار سہیل وڑائچ کے خیال میں وزیرِ اعظم عمران خان کو اپنا لہجہ نرم رکھنا چاہیے۔ کیوں کہ تصادم میں حکومت کا نقصان ہے۔ سیاسی جماعتوں کو تصادم اور محاذ آرائی میں فائدہ پہنچتا ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے سہیل وڑائچ نے کہا کہ حکومت اور حزبِ اختلاف کی جماعتوں کے درمیان اگر سنجیدہ مذاکرات ہوتے ہیں، تو بات ہو سکتی ہے۔ اُن کی رائے میں وزیراعظم عمران خان خود مذاکرات کے حامی نہیں ہیں تو کیا مذاکرات ہوں گے۔

مینارِ پاکستان پر پی ڈی ایم کے جلسے کی میزبانی مسلم لیگ (ن) کر رہی ہے۔ جس کے لیے مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز نے کارکنوں کو متحرک کرنے کے لیے رابطہ مہم شروع کر رکھی ہے۔ جمعرات کو لاہور میں ریلی نکالنے پر مریم نواز سمیت مسلم لیگ (ن) کے رہنماؤں اور کارکنوں کے خلاف چار مقدمات درج کیے گئے۔ جن میں اشتعال انگیز تقاریر، ساؤنڈ سسٹم ایکٹ، روڈ بلاک کرنے اور کرونا ایس او پیز کی خلاف ورزی کی دفعات شامل کی گئی ہیں۔

پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سینئر رہنما اور سابق وزیرِ اعظم شاہد خاقان عباسی کہتے ہیں کہ حکومت جتنی مرضی مشکلات کھڑی کر لے۔ جلسہ تو ہو کر ہی رہے گا۔

لاہور میں ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ پی ڈی ایم کا لاہور جلسہ، ملتان جلسے سے بھی بڑا ہو گا۔ جس میں نواز شریف بھی خطاب کریں گے۔

شاہد خاقان عباسی نے پی ڈی ایم کی حکومت مخالف تحریک کے بارے میں کہا کہ موجودہ حکومت کے جانے کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ پہلے ہی ختم چکی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ تبدیلی جیسی بھی ہو، نئے الیکشن کے بغیر اب گزارا نہیں ہے۔ لیکن انتخابات سے پہلے یہ فیصلہ کرنا پڑے گا کہ ملک کا نظام کیسے چلے گا۔ ساری بات نظام کی تبدیلی کی ہے۔

تجزیہ کار سہیل وڑائچ سمجھتے ہیں کہ لاہور میں مسلم لیگ (ن) کا جلسہ کرنا بظاہر تو آسان ہونا چاہیے۔ کیوں کہ یہ مسلم لیگ کا حلقہ ہے۔ یہاں پر وہ اکثریت میں ہیں۔ لیکن جو تاریخ بتاتی ہے، وہ یہ ہے کہ مسلم لیگ (ن) کبھی لاہور میں بڑا جلسہ نہیں پائی۔

سہیل وڑائچ کی رائے میں لاہور میں پی ڈی ایم کے جلسے میں مسلم لیگ کے حامی تو یقینی طور پر آئیں گے۔ سوال یہ ہو گا کہ مینارِ پاکستان بھرنے کے لیے ووٹرز کی ضرورت ہو گی۔ صرف سپورٹرز کافی نہیں ہیں۔

ان کے بقول حکومت کے لیے چیلنج یہ ہے کہ اگر بہت بڑا جلسہ ہو گیا۔ جس کے اثرات عمران خان کے یا بے نظیر بھٹو کے جلسوں جیسے ہوئے، تو ظاہر ہے اُس سے حکومت تو نہیں گرتی لیکن حکومت ہل ضرور جاتی ہے۔

پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے سینئر رہنما اور سابق وزیرِ اعظم یوسف رضا گیلانی کہتے ہیں کہ عمران خان کو جلسہ روکنا نہیں چاہیے اور نہ ہی اُس میں رکاوٹیں ڈالنی چاہیے۔

یوسف رضا گیلانی نے کہا کہ اُن کے دور میں کوئی سیاسی قیدی نہیں بنا۔ لیکن موجودہ حکومت انتقام کی سیاست کر رہی ہے۔

لاہور میں ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے یوسف رضا گیلانی نے کہا کہ جلسے جلوس جمہوریت کا حسن ہوتے ہیں اور حکومت کو اُنہیں برداشت کرنا چاہیے۔

تجزیہ کار سہیل وڑائچ کی رائے میں بلاول بھٹو زرداری بھی پی ڈی ایم کے جلسے کو کامیاب بنانے کی کوشش کر رہے ہیں اور اپنے کارکنوں کو بھی متحرک کر رہے ہیں۔ لیکن بنیادی طور پر اتوار کو لاہور میں مسلم لیگ (ن) کا ہی جلسہ ہو گا باقی جماعتوں کی تو صرف شرکت ہو گی۔

واضح رہے کہ پی ڈی ایم میں شامل جماعتوں کے ارکانِ قومی و صوبائی اسمبلی نے اپنی نشستوں سے مستعفی ہونے کے لیے استعفے اپنی جماعت کی قیادت کو جمع کرانے شروع کر دیے ہیں۔

گیارہ جماعتوں پر مشتمل اپوزیشن اتحاد نے جلسوں کا باقاعدہ آغاز 16 اکتوبر 2020 کو پنجاب کے شہر گوجرانوالہ سے کیا تھا۔ جس کے بعد 18 اکتوبر کو کراچی، 25 اکتوبر کو کوئٹہ، پھر پشاور اور گزشتہ ماہ 30 نومبر کو ملتان میں جلسہ کیا گیا تھا۔

دوسری جانب حکومت پاکستان نے کرونا وائرس کی دوسری لہر کے باعث ہر قسم کے جلسے جلوسوں پر پابندی عائد کر دی ہے۔

این سی او سی کے مطابق پاکستان میں کرونا وائرس کے دوسری لہر میں وائرس پھیلنے کی شرح ساڑھے سات فی صد ہے۔

یہ بھی پڑھیے

XS
SM
MD
LG