رسائی کے لنکس

کراچی: پولیس افسران پر ڈکیتی کا الزام، 'جواب دہی نہ ہونے کا یہ نتیجہ نکلتا ہے'


"یہ 18 اور 19 نومبر کی درمیانی شب کا واقعہ ہے جب کراچی کے علاقے اورنگی ٹاون میں پولیس پارٹی نے شاکر خان نامی شہری کے گھر رات دو بجے چھاپا مارا۔ شاکر خان سینیٹری کے کاروبار سے وابستہ ہیں اور وہ علاقے میں ایک جانے پہچانے تاجر ہیں۔"

"اورنگی ٹاون کراچی کے ضلع غربی میں واقع ہے جب کہ چھاپہ مار ٹیم ضلع جنوبی سے آئی اور متعلقہ تھانے اور ضلعی پولیس کو آگاہ کرنے کی بھی زحمت گوارا نہیں کی۔ چھاپے کے دوران 15 سے 20 افراد پر مشتمل پولیس ٹیم پہنچی جن میں سے کچھ وردی میں اور کچھ سادہ کپڑوں میں بھی ملبوس تھے۔ جو پولیس موبائل اور کالی ویگو اور کچھ موٹر سائیکلز پر سوار تھے۔"

یہ الزامات کراچی میں تاجر کے گھر دو کروڑ روپے کی ڈکیتی اور سونا لوٹنے کے الزام میں کراچی پولیس کے دو افسران پر عائد کیے گئے ہیں۔

مدعی مقدمے کے مطابق پولیس نے گھر پر موجود تمام افراد کو ایک کمرے میں بند کیا، الماریوں کے تالے توڑ کر گھر سے تقریباً دو کروڑ روپے، 70 سے 80 تولہ سونا، گھر کا دیگر قیمتی سامان، لیپ ٹاپ وغیرہ اپنے ساتھ لے گئے۔

ایف آئی آر کے مطابق پولیس اہلکار شاکر خان سمیت ان کے بھائی کو بھی آنکھوں پر پٹی باندھ کر پولیس موبائل میں بٹھا کر ساتھ لے گئے۔ بعد ازاں پولیس پارٹی نے شاکر اور ان کے بھائی کو بلوچ کالونی کے قریب اتار دیا جب کہ سامان اور نقدی لے کر چلے گئے۔

فائل فوٹو
فائل فوٹو

اگلے دن واقعے کی تفصیلات سے متعلقہ تھانے یعنی پیرآباد میں درخواست جمع کرائی گئی مگر پولیس نے ایف آئی آر درج نہیں کی۔ جب واقعے کی سی سی ٹی وی سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی اور یہ خبر مقامی میڈیا پر چلی تو شاکر خان کو رات کو ڈیفنس تھانے میں بلالیا گیا۔ جہاں پولیس نے گھر سے لی جانے والی رقم میں سے ایک کروڑ تین لاکھ 50 ہزار اور تقریباً 50 تولہ سونا واپس کردیا۔

لیکن مدعی کا دعویٰ ہے کہ چھینی گئی رقم دو کروڑ سے زائد اور سونا 70 سے 80 تولے تھا۔ واقعہ جب مزید مشہور ہوا تو آئی جی سندھ پولیس کو بھی اس کا نوٹس لینا پڑا۔ معاملے کی ڈی آئی جی سطح پر تفتیش شروع ہوئی اور پھر اس میں مزید انکشافات سامنے آئے۔

ڈی آئی جی ضلع غربی کراچی عاصم قائمخانی کی سربراہی میں ہونے والی انکوائری رپورٹ نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ پولیس کا چھاپہ غیر پیشہ وارانہ انداز میں مذموم مقاصد کے تحت ڈالا گیا۔

حقائق کو جان بوجھ کر چھپایا گیا اور اس واقعے کو پولیس پارٹی کی جانب سے متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) لندن کے لیے دہشت گردی کی کارروائیوں کے لیے مالی معاونت میں ملوث افراد پر چھاپہ مارنے اور گرفتار کرنے کا رنگ دیا گیا۔

اس غیر قانونی اور مجرمانہ فعل کی تمام تر ذمے داری ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ پولیس (ڈی ایس پی) عمیر طارق باجاری اور ضلع جنوبی کراچی کے سینئر سپرنٹنڈنٹ پولیس (ایس ایس پی) عمران قریشی سمیت دیگر پولیس اہلکاروں اور پولیس کے پرائیویٹ مخبروں پر عائد کی گئی ہے۔

یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے جب پولیس اہلکار اور افسران پر اس نوعیت کے الزامات عائد کیے گئے ہیں۔ مبصرین اور شہری حقوق کے رہنماؤں کا کہنا ہے کہ یہی وہ وجوہات ہیں کہ جن کی بنا پر معاشرے میں پولیس پر عوام کا اعتماد تیزی سے ختم ہو رہا ہے۔

'پولیس کو سیاست زدہ اور بغیر احتساب کے بیجا اختیارات دینے کے نتائج سامنے ہیں'

سٹیزن پولیس لائیزن کمیٹی (سی پی ایل سی) کے سابق سربراہ جمیل یوسف کہتے ہیں کہ بہت سے واقعات میں دیکھا گیا ہے کہ جرائم پیشہ افراد اور پولیس ایک دوسرے کے ساتھ ملے ہوتے ہیں۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ اب اس واقعے کے حقائق سے معلوم ہوتا ہے کہ حالات یہاں تک پہنچ چکے ہیں کہ خود پولیس افسران ایسے مواقع پر بذات خود موجود تھے، اس واقعے سے ملک میں پولیس کا خراب تاثر مزید بگڑا ہے۔

انہوں نے کہا کہ پولیس اہلکاروں اور افسران کی بھرتی کے عمل میں جانب داری، اقربا پروری، رشوت ستانی اور دیگر غیر اخلاقی اور غیر قانونی ذرائع کے استعمال کے بھیانک نتائج ہمارے سامنے ہیں۔ یہ تاثر عام ہے کہ پولیس عوام کی خدمت کے بجائے اپنی اور اپنے سیاسی آقاؤں کی حفاظت کرتی ہے۔

'جواب دہی سے آزادی ناجائز دولت جمع کرنے کا سبب ہے'

تجربہ کار اور کرائم رپورٹر عارف محمود کہتے ہیں کہ پولیس افسران عدالتی اور پولیس کے نظام کی خوبیوں اور خامیوں کو بھی خوب جانتے ہیں۔ انہیں معلوم ہے کہ اگر کسی واقعے کی ایف آئی آر بھی درج ہو جائے تو تفتیش میں کیسے خامیاں پیدا کرکے مکھن سے بال کی طرح نکلا جا سکتا ہے۔

اُن کے بقول ایسے میں عہدے کی طاقت بغیر کسی جوابدہی کے انہیں ناجائز دولت کمانے کے لیے استعمال پر اکساتی ہے اور سب سے بڑھ کر زیادہ تر معاملات میں سیاسی پشت پناہی نے پولیس کو عوام کی خدمت سے کوسوں دور کر دیا ہے۔

پولیس نے واقعے کا مقدمہ درج کر کے ڈی ایس اپی عمیر طارق کو گرفتار کرلیا اور ان کا جسمانی ریمانڈ بھی حاصل کرلیا ہے۔

پولیس حکام کے مطابق مذکورہ پولیس افسران کے خلاف پہلے بھی شکایات آ چکی ہیں۔ ایس ایس پی عمران قریشی پر تربت میں ایک مقدمہ بھی قائم ہوا تھا جس میں ان پر الزام تھا کہ رقم نہ دینے کے باعث پولیس تشدد سے دو افراد کی ہلاکت ہو گئی تھی۔ تاہم بعد میں یہ الزام عدالت میں ثابت نہ ہو سکا اور پولیس افسر اس الزام سے بری قرار پائے۔

پولیس حکام کے مطابق ماضی میں بھی ایسی کئی رپورٹس سامنے آئی ہیں جن میں مجرمانہ ریکارڈ رکھنے والے پولیس افسران کی نشاندہی کی گئی اور ان میں سے بعض اس قدر طاقت ور تھے کہ انہیں سپریم کورٹ کی ہدایات کے بعد ہی عہدوں سے ہٹایا جا سکا تھا۔

ڈی ایس پی کے وکیل عامر منسوب نے عدالت میں مؤقف اپنایا کہ ان کے موکل نے کوئی جرم نہیں کیا ہے اور پولیس اس حوالے سے میمو آف اریسٹ بھی پیش نہیں کرسکی ہے۔

اُن کے بقول کوئی وجہ نہیں کہ ملزم کو جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کیا جائے۔

عامر منسوب کا مزید کہنا تھا کہ ڈی ایس پی عمیر طارق زیر تربیت ہیں اور قانون کے تحت یہ کسی آپریشن کو لیڈ نہیں کر سکتے، اُنہیں بدنیتی کی بنیاد پر نامزد کیا گیا ہے۔

پولیس افسران پر ڈکیتی کا الزام لگنے کے بعد پولیس افسران کو کسی اور ڈسٹرکٹ یا یونٹ سے غیر قانونی طور پر آنے والی پولیس پارٹیوں کے خلاف کارروائی کا حکم دیا گیا ہے۔

تھانے یا متعلقہ افسران کے علم میں لائے بغیر چھاپہ مارنے والی ٹیم کو متعلقہ تھانے لانے کی ہدایت کی گئی ہے۔

ایس ایس پی عارف اسلم راؤ کا کہنا ہے کہ غیر قانونی چھاپہ مارنے والی کسی بھی ٹیم کی مکمل چھان بین کی جائے اور کسی بھی چھاپے کے دوران بغیر یونیفارم اہلکاروں کی موجودگی پر بھی ایکشن کیا جائے گا جب کہ ایس ایچ او اور ڈی ایس پیز سمیت افسران اپنے ساتھ پرائیویٹ افراد نہ رکھیں۔

فورم

XS
SM
MD
LG