رسائی کے لنکس

’شام خانہ جنگی کے دہانے پر‘


اقوام متحدہ کے سابق سیکرٹری جنرل کوفی عنان کی شام کے صدر بشار الاسد سے ملاقات کا ایک منظر(فائل فوٹو)
اقوام متحدہ کے سابق سیکرٹری جنرل کوفی عنان کی شام کے صدر بشار الاسد سے ملاقات کا ایک منظر(فائل فوٹو)

شام میں قیامِ امن کے لیے سفارتی کوششیں کامیاب نہیں ہوئی ہیں اور حکومت اور مخالف فورسز کے درمیان لڑائی کی صورتِ حال بد سے بد تر ہوتی جا رہی ہے۔

تین مہینے پہلے اقوامِ متحدہ اورعرب لیگ نے اقوام متحدہ کے سابق سیکرٹری جنرل کوفی عنان کو یہ ذمہ داری سونپی تھی کہ وہ شام کے بحران کے خاتمے کے لیے کوئی منصوبہ تیار کریں۔

مشترکہ خصوصی مندوب نے ایک چھ نکاتی لائحہ عمل تیار کیا۔ لیکن بہت سے ماہرین جن میں ایک سابق ڈپٹی سیکرٹری جنرل مارک میلوک براؤن بھی شامل ہیں جو اقوام متحدہ میں کوفی عنان کے ساتھ کام کر چکے ہیں، کہتے ہیں کہ مسئلہ یہ ہے کہ نہ تو شام کی حکومت نے اور نہ حکومت کے مخالفین نے مسٹر عنان کی تجاویز پر عمل در آمد کیا ہے۔

’’حکومت نے بھاری اسلحہ نہیں ہٹایا؛ اس نے انسانی ہمدردی کی بنیاد پر امداد پہنچانے کی سہولت نہیں دی؛ اس نے جنگ بندی کا احترام نہیں کیا۔ اور دوسری طرف باغیوں نے بھی، کیوں کہ وہ بہت سے دھڑوں میں بٹے ہوئے ہیں، حکومت کے خلاف فوجی کارروائی بند نہیں کی۔‘‘

مارک براؤن کہتے ہیں کہ شام خانہ جنگی کے دہانے پر کھڑا ہے، بلکہ شاید وہاں خانہ جنگی شروع ہو چکی ہے۔

’کبھی کبھی خانہ جنگی میں اور خانہ جنگی کے دہانے پر پہنچ جانے میں اتنا کم فرق ہوتا ہے کہ یہ بے معنی سی بات لگتی ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ علویہ ملیشیاؤں کی جانب سے سُنی گاؤں میں بے گناہ سویلین آبادیوں پر حملوں کے جواب میں، ملک کے دوسرے حصوں میں علویہ سویلین آبادیوں پر حملے شروع ہو گئے ہیں۔ لہٰذا فرقہ وارانہ تشدد کے جواب میں مزید تشدد ہو رہا ہے جو در اصل خانہ جنگی ہی ہے۔‘‘

اقوامِ متحدہ کے اعلیٰ سابق عہدے دار کی نظر میں شام میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ بالکل وہی ہے جو ایک اور ملک میں 20 سال پہلے ہوا تھا۔

’’مذہبی کشیدگی کو اس تنازعے سے ہوا ملی ہے اور اس کے نتیجے میں جن بستیوں میں لوگ بالکل امن و امان سے وہ رہے تھے وہاں اب یوگو سلاویہ جیسے حالات کا خطرہ پیدا ہو گیا ہے جہاں قدیمی اختلافات پھر سے بھڑک اٹھے اور آبادی کے مختلف حصوں کے درمیان بہت بڑی جنگ کا سبب بن گئے۔‘‘

مارک براؤن کو علاقے میں کہیں زیادہ بڑے تصادم کا خطرہ نظر آ رہا ہے، ملکوں کے درمیان نہیں، بلکہ شام کے ہمسایہ ملکوں میں شیعہ سنی تصادم کا خطرہ ہے۔

’’لبنان میں یہ خطرہ بہت زیادہ ہے۔ لیکن میرے خیال میں عراق میں بھی شیعہ اکثریت اور سنی اقلیت کے درمیان تعلقات اچھے نہیں ہیں۔ عراق میں سنی اقلیت کے پاس بیشتر اختیارات رہ چکے ہیں۔ اردن جیسے ملک میں بھی یہ مسئلہ موجود ہے، اگرچہ وہاں زیادہ بڑی پریشانی بہت بڑی تعداد میں پناہ گزینوں کی آمد اور اس سے پیدا ہونے والے عدم استحکام کے بارے میں ہو سکتی ہے۔ لیکن پورے علاقے میں ہر کوئی اس پریشانی میں گرفتار ہے۔‘‘

اقوامِ متحدہ کے سابق عہدے دار کہتے ہیں کہ اب ہمارے سامنے چیلنج یہ ہے کے سفارتکاری کو ایک اور موقع کیسے دیا جائے۔ وہ کہتے ہیں کہ وقت آ گیا ہے کہ بہت سے ملکوں کا ایک گروپ تشکیل دیا جائے جو اس مسئلے کا سیاسی حل چاہتے ہیں۔

’’فرینڈز آف سیریا نامی گروپ کے برعکس، جو حکومت کے ناقدین اور دشمنوں کا گروپ ہے، ایک کہیں زیادہ طاقتور سفارتی گروپنگ وہ ہو گی جس میں روس بھی شامل ہو اور ایران بھی کیوں کہ ایران بھی بہت با اثر ہے۔ میں جانتا ہوں کہ یہ بڑی متنازعہ بات ہے، اور لگتا یہی ہے کہ یہ ناقابلِ حصول ہے۔‘‘

مارک براؤن کہتے ہیں کہ شام میں کسی سیاسی حل کے لیے اب بھی ابتدا مسٹر عنان کے منصوبے ہی سے کرنا ہوگی۔ لیکن وہ کہتے ہیں کہ بین الاقوامی برادری کو شام کی حکومت پر اور حکومت مخالف جنگجوؤں پر دباؤ ڈالنا ہوگا تا کہ سیاسی حل ممکن ہو سکے۔

XS
SM
MD
LG