رسائی کے لنکس

یمن میں خانہ جنگی کا خطرہ


یمن میں خانہ جنگی کا خطرہ
یمن میں خانہ جنگی کا خطرہ

یمن میں ایک مصالحت کار کا کہنا ہے کہ ملک کے صدر اور حکومت کے مخالف قبائلی لیڈروں کے درمیان جنگ بندی پر اتفاق ہو گیا ہے۔ سکیورٹی فورسز کے ساتھ کئی دنوں سے جاری جنگ عارضی طور سے رک گئی ہے۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ یمن میں لڑائی خانہ جنگی میں تبدیل ہو سکتی ہے۔ عدم استحکام سے اس خطرے میں اضافہ ہو گیا ہے کہ یمن میں القاعدہ کی ایک شاخ بیرونی ملکوں میں دہشت گردی کے حملے شروع کر سکتی ہے۔

کئی مہینوں سے احتجاج کرنے والے لوگ جو بڑی حد تک پُر امن رہے ہیں، مصر اور تیونس کی عوامی تحریکوں سے متاثر ہو کر، یمن میں سیاسی اور اقتصادی تبدیلیوں کا مطالبہ کرتے رہے ہیں۔

لیکن حالیہ دنوں میں، یمن کے دارالحکومت صنعاء کی سڑکوں پر شدید گولہ باری ہوئی ہے اور Hashid قبیلے کی ملیشاؤں اور حکومت کی حامی فورسز کے درمیان جھڑپیں ہوئی ہیں۔

Edmund J. Hull یمن میں امریکی سفیر رہ چکے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ‘‘میں سمجھتا ہوں کہ اگر حالات تبدیل کرنے کے لیے بڑے پیمانے پر کوئی بین الاقوامی کوشش نہ ہوئی، تو تشدد میں بہت زیادہ اضافہ ہو جائے گا اور قومی امکان یہی ہے کہ ملک میں سول وار شروع ہو جائے گی۔’’

اس لڑائی کا آغاز اس وقت ہوا جب صدر علی عبداللہ صالح نے تیسری بار انتقال اقتدار کے سمجھوتے پر دستخط کرنے اور تیس سال سے زیادہ عرصے کی آمرانہ حکومت کے بعد اقتدار چھوڑنے سے انکار کر دیا۔

قبائلی سردار، صادق الاحمر
قبائلی سردار، صادق الاحمر

قبائلی سردار، صادق الاحمر، مسٹر صالح کی حکومت کے لیے ایک بڑا خطرہ بن کر ابھرے ہیں۔ الاحمر ایک غریب ملک میں جہاں خاندانی وفاداریاں بہت اہم ہوتی ہیں، ایک طاقتور قبائلی تنظیم کے سربراہ ہیں۔

Katherine Zimmerman یمن کے امور کی ماہر ہیں اور American Enterprise Institute سے وابستہ ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ‘‘اقتدار چھوڑنےسے صالح کے تیسری بار انکار سے بہت سے گروپوں کو سخت مایوسی ہوئی ہے۔ وہ اب یہ سوچ رہے ہیں کہ شاید وہ پُر امن طریقے سے اقتدار چھوڑنے کو تیار نہیں ہوں گے اور اقتدار کی منتقلی کا صرف ایک ہی طریقہ ہے اور وہ ہے طاقت کا استعمال۔’’

امریکہ کے انٹیلی جنس عہدے داروں کا خیال ہےکہ جزیرہ نمائے عرب میں القاعدہ جو یمن میں قائم ہے، اب امریکہ کے لیے دہشت گردی کا سب سے اہم خطرہ ہے۔ یمن میں القاعدہ کی سرگرمیوں کی صلاحیتوں میں اضافہ ہو رہا ہے جب کہ اس دہشت گرد گروپ کے خلاف حکومت کی کوششیں کم ہوتی جا رہی ہیں کیوں کہ فوجوں کو صنعا میں صدارتی محل اور دوسری تنصیبات کی حفاظت پر مامور کر دیا گیا ہے۔

سابق سفیر Hull جو High Value Target – Countering al-Qaida کے مصنف ہیں، کہتے ہیں کہ اس طرح یہ گروپ اور بھی زیادہ خطرناک ہو گیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ ‘‘ان کا ہمیشہ یہ ارادہ رہا ہے کہ وہ نہ صرف یمن میں بلکہ علاقے میں، کوئی بڑا حملہ کریں، جیسے سعودی عرب میں اور امریکہ کی سرزمین پر۔ ان کے اس ارادے کے بارے میں کبھی کوئی شبہ نہیں رہا۔ اب ہم جو کچھ دیکھ رہے ہیں وہ یہ ہے کہ اس ارادے کو عملی جامہ پہنانے کی صلاحیت میں اضافہ ہو گیا ہے۔’’

تجزیہ کار کہتے ہیں کہ یمن میں شورش کی وجہ سے القاعدہ کی حملوں کی منصوبہ بندی اور سازشیں کرنے کے صلاحیت میں اضافہ ہو رہا ہے ۔ Katherine Zimmerman کہتی ہیں کہ امریکہ کو محتاط رہنا چاہیئے۔ ان کے مطابق ‘‘ان حالات میں امریکہ کے لیے خطرہ بہت بڑھ گیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی، القاعدہ کے کارندے، کسی نگرانی کے بغیر، بہت آزادی سے اپنی کارروائیاں کر سکتے ہیں۔’’

اگرچہ یمن کا مستقبل غیر یقینی ہے، لیکن تجزیہ کار کہتے ہیں کہ موجودہ ہنگاموں سے القاعدہ کو تقویت ملی ہے اور وہ مشرقِ وسطیٰ سے لے کر امریکہ تک بہت سے ملکوں کے لیے روز افزوں خطرہ بن گئی ہے۔

یہ بھی پڑھیے

XS
SM
MD
LG