رسائی کے لنکس

پاکستان میں میچ فکسنگ کے 20 سال پرانے تنازع کا چرچا کیوں؟


پاکستان میں ایک مرتبہ پھر نوے کی دہائی میں ہونے والے میچ فکسنگ کے اسکینڈلز پر بحث شروع ہو گئی ہے۔ (فائل فوٹو)
پاکستان میں ایک مرتبہ پھر نوے کی دہائی میں ہونے والے میچ فکسنگ کے اسکینڈلز پر بحث شروع ہو گئی ہے۔ (فائل فوٹو)

پاکستان کے کرکٹ حلقوں میں ایک بار پھر 20 سال پرانے میچ فکسنگ اسکینڈل کا چرچا ہے۔ سابق کپتان سلیم ملک کے اچانک منظر عام پر آنے اور کرکٹ میں واپسی کا موقع دینے پر تبصروں اور تجزیوں کا سلسلہ بھی جاری ہے۔

نوے کی دہائی میں میچ فکسنگ کے الزامات سامنے آنے پر صدرِ پاکستان کی ہدایت پر لاہور ہائی کورٹ کے جج جسٹس ملک قیوم پر مشتمل ایک رکنی تحقیقاتی کمیشن قائم کیا گیا تھا جس نے اپنی سفارشات میں سابق کپتان سلیم ملک اور فاسٹ بالر عطاء الرحمن پر تاحیات پابندی عائد کی تھی۔

انکوائری کمیشن نے سلیم ملک کو کرکٹ سے متعلقہ کسی بھی شعبے میں کوئی بھی کردار نہ دینے کی سفارش بھی کی تھی۔

کمیشن نے سابق کپتان وسیم اکرم کے کردار کو بھی مشکوک قرار دیا تھا لیکن عدم شواہد کی بنا پر اُنہیں میچ فکسنگ کے الزامات سے بری کر دیا تھا۔

کمیشن نے وسیم اکرم کو تین لاکھ روپے جرمانہ اور کپتانی سے ہٹانے کی بھی سفارش کی تھی۔ کمیشن نے وقار یونس، مشتاق احمد، انضمام الحق، اکرم رضا اور سعید انور کو بھی جرمانے کیے تھے۔

پاکستان کی کرکٹ میں جسٹس قیوم رپورٹ ہر اس موقع پر موضوعِ بحث بن جاتی ہے جب جب میچ فکسنگ کی خبریں گردش کرنے لگتی ہیں۔

پاکستان کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان سلیم ملک بھارت کے خلاف ایک میچ میں بیٹںگ کرتے ہوئے۔
پاکستان کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان سلیم ملک بھارت کے خلاف ایک میچ میں بیٹںگ کرتے ہوئے۔

لیکن اس بار یہ بحث ایسے موقع پر ہو رہی ہے جب حال ہی میں پاکستان کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان انضمام الحق نے سلیم ملک کو ایک موقع دینے کا مطالبہ کیا تھا۔ اس مطالبے کے بعد ایک مرتبہ پھر جسٹس قیوم رپورٹ، میچ فکسنگ اور اس میں ملوث کردار موضوعِ بحث بن گئے ہیں۔

پاکستان کے سینئر اسپورٹس جرنلسٹ عبدالماجد بھٹی کا کہنا ہے کہ کرونا وائرس کے باعث کھیلوں کی سرگرمیاں نہیں ہو رہیں۔ لہذٰا یہ پرانا معاملہ اُٹھا کر اسے زبردستی موضوعِ بحث بنایا جا رہا ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ یہ وہی پرانی کہانیاں ہیں، جنہیں دہرایا جا رہا ہے۔ عبدالماجد بھٹی کے بقول "یہ ساری کہانی وسیم اکرم کے گرد گھوم رہی ہے۔ ہو سکتا ہے کہ کچھ لوگ وسیم اکرم کو ٹارگٹ کرنا چاہتے ہوں۔"

خیال رہے کہ پاکستان کے سابق کپتان وسیم اکرم پاکستان کرکٹ بورڈ کی کرکٹ کمیٹی کے رُکن ہیں۔

سلیم ملک کا مطالبہ کیا ہے؟

پاکستان کی جانب سے 103 ٹیسٹ میچز اور 283 ایک روزہ میچز کھیلنے والے سلیم ملک نے حال ہی میں اپنے ایک ویڈیو پیغام میں شائقین کرکٹ سے معذرت کی ہے۔ لیکن میچ فکسنگ کے حوالے سے اُنہوں نے کوئی اعتراف نہیں کیا۔

سلیم ملک کا کہنا ہے کہ انکوائری کمیشن نے صرف اُنہیں نشانہ بنایا، حالانکہ دیگر کھلاڑیوں کے نام بھی سامنے آئے تھے۔ اُن کے بقول 2008 میں لاہور کی عدالت نے اُن پر عائد تاحیات پابندی ختم کر دی تھی۔

سلیم ملک کا کہنا ہے کہ کرکٹ اُن کا ذریعہ معاش ہے۔ لہذٰا دیگر کھلاڑیوں کی طرح اُنہیں بھی موقع دیا جائے کہ وہ نئے کھلاڑیوں کی کوچنگ کر کے روزگار حاصل کر سکیں۔

کیا سلیم ملک کو دوبارہ موقع ملنا چاہیے؟

پاکستان کرکٹ بورڈ کے سابق چیئرمین خالد محمود کا کہنا ہے کہ سلیم ملک کا مؤقف اس حد تک درست ہے کہ میچ فکسنگ میں جن کھلاڑیوں کے نام سامنے آئے تھے۔ اُنہیں کرکٹ میں دوبارہ موقع دیا گیا۔ جو جسٹس قیوم کی سفارشات کی نفی تھی۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے خالد محمود کا کہنا تھا کہ سلیم ملک کے ساتھ امتیازی سلوک ہوا۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ اُنہیں دوبارہ موقع دیا جائے۔

اُن کے بقول یہ ضرور ہونا چاہیے کہ ایسے سابق کھلاڑی جن کا نام میچ فکسنگ یا جسٹس قیوم کی رپورٹ میں سامنے آیا تھا۔ اگر وہ کرکٹ بورڈ میں ہیں تو اُنہیں وہاں نہیں ہونا چاہیے۔

عبدالماجد بھٹی کے بقول سال 2000 میں سلیم ملک نے برطانوی صحافی مظہر محمود سمیت کچھ لوگوں سے ملاقاتیں کی تھیں۔ اس دوران سلیم ملک کی میچ فکسنگ کے حوالے سے گفتگو کی کچھ آڈیو ٹیپس انٹرنیشنل کرکٹ کونسل (آئی سی سی) کو موصول ہوئی تھیں۔

یہ وہی مظہر محمود ہیں جو 2010 میں اسٹنگ آپریشن کے ذریعے پاکستان کرکٹ ٹیم کے کھلاڑیوں سلمان بٹ، محمد آصف اور محمد عامر کا اسپاٹ فکسنگ کا معاملہ سامنے لے کر آئے تھے۔

پاکستان کرکٹ بورڈ کے سابق چئیرمین اعجاز بٹ نے سلیم ملک کو 2008 میں نیشنل کرکٹ اکیڈمی کا ہیڈ کوچ مقرر کیا تھا۔ جس پر آئی سی سی نے پی سی بی کے اقدام پر اعتراض اٹھایا تھا۔

آئی سی سی نے پاکستان کرکٹ بورڈ کو سلیم ملک اور مظہر محمود کے درمیان ہونے والی گفتگو کی ویڈیو ٹرانسکرپٹس فراہم کی تھی اور سلیم ملک سے اس پر وضاحت بھی طلب کی گئی تھی۔

سلیم ملک میچ فکسنگ کے الزامات کی ہمیشہ تردید کرتے رہے ہیں۔
سلیم ملک میچ فکسنگ کے الزامات کی ہمیشہ تردید کرتے رہے ہیں۔

البتہ، سلیم ملک کا یہ مؤقف ہے پاکستان کرکٹ بورڈ نے اُن سے کوئی رابطہ نہیں کیا۔ اُن کے بقول اگر اُنہیں مذکورہ ٹیپس یا شواہد دکھائے جائیں تو وہ جواب ضرور دیں گے۔

کرکٹ ویب سائٹ 'کرک انفو' کے پاکستان میں نمائندے عمر فاروق کا کہنا ہے کہ جسٹس قیوم انکوائری رپورٹ میں جن کھلاڑیوں کو جرمانے ہوئے، ان میں سے بیشتر کرکٹ سے وابستہ رہے اور کرکٹ بورڈ میں بھی اعلیٰ عہدوں پر فائز رہے۔ لہذٰا سلیم ملک شاید احساس کمتری میں ہیں کہ اُنہیں موقع کیوں نہیں مل رہا۔

عمر فاروق کہتے ہیں کہ میچ فکسنگ کے 20 سال پرانے معاملے کو اُچھالنے سے کسی کو کچھ حاصل نہیں ہو گا۔

اُن کے بقول لاک ڈاؤن کے باعث کرکٹ نہ ہونے سے 20 سال پرانا معاملہ دوبارہ زندہ کرنا پاکستانی میڈیا کو آسان لگا ہے۔

میچ فکسنگ کی تحقیقات کب کیا ہوا؟

عبدالماجد بھٹی کا کہنا ہے کہ 1994 کے لگ بھگ میچ فکسنگ کے الزامات سامنے آئے۔ جن میں سلیم ملک کا نام بار بار سامنے آتا رہا۔ حتٰی کے بھارت میں سابق کپتان اظہر الدین کے خلاف ہونے والی تحقیقات کے دوران بھی سلیم ملک کا نام سامنے آتا رہا تھا۔

اُنہوں نے بتایا کہ 1994 میں آسٹریلیا کی ٹیم پاکستان کے دورے پر آئی۔ اس کے تین کھلاڑیوں ٹم مے، شین وارن اور مارک وا نے وطن واپسی پر الزام لگایا تھا کہ سلیم ملک نے اُنہیں میچ فکسنگ کی پیش کش کی تھی۔

جنوبی افریقہ میں بھی سابق کپتان ہنسی کرونیے اور کچھ دیگر کھلاڑیوں کے خلاف ہونے والی تحقیقات کے دوران بھی سلیم ملک کا نام سامنے آتا رہا تھا۔

بھارت میں سابق کپتان اظہر الدین کے خلاف ہونے والی تحقیقات کے دوران بھی سلیم ملک کا نام سامنے آتا رہا تھا۔
بھارت میں سابق کپتان اظہر الدین کے خلاف ہونے والی تحقیقات کے دوران بھی سلیم ملک کا نام سامنے آتا رہا تھا۔

لہذٰا پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) نے پہلی بار اس معاملے کی جسٹس (ر) فخر الدین جی ابراہیم سے انکوائری کرائی تھی۔ کمیشن نے تینوں آسٹریلوی کھلاڑیوں کو بلایا، لیکن تینوں نے پاکستان آ کر گواہی دینے سے انکار کیا۔ جس پر سلیم ملک کو بری کر دیا گیا تھا۔

لیکن میچ فکسنگ کے الزامات تواتر سے سامنے آتے رہے۔ جس پر 1999 میں پاکستان کرکٹ بورڈ کی سفارش پر پاکستان کرکٹ ٹیم کے پیٹرن اِن چیف یعنی صدرِ پاکستان نے عدالتی تحقیقات کا حکم دیا۔

نوے کی دہائی میں 1999 کے کرکٹ ورلڈ میں پاکستان کے بنگلہ دیش اور بھارت کے ساتھ میچز کے علاوہ ورلڈ کپ کے فائنل پر بھی سوالات اُٹھائے جاتے رہے ہیں۔

لیکن، اُس وقت کے چیئرمین پی سی بی خالد محمود کہتے ہیں کہ اُنہوں نے خود اس معاملے کی جوڈیشل انکوائری کرائی تھی۔ لیکن کچھ ثابت نہیں ہوا۔

پاکستان کرکٹ بورڈ کا مؤقف

پاکستان کرکٹ بورڈ کے ترجمان سمیع الحسن برنی کا کہنا ہے کہ آئی سی سی کی جانب سے بھیجے گئے ویڈیو ٹرانسکرپٹس کی کاپی اب بھی پی سی بی کے اینٹی کرپشن یونٹ کے پاس موجود ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے سمیع برنی کا کہنا تھا کہ سلیم ملک جب چاہیں، اینٹی کرپشن یونٹ سے رابطہ کر کے اپنا جواب جمع کرا سکتے ہیں۔

وسیم اکرم، مشتاق احمد یا دیگر کھلاڑیوں کو بورڈ میں شامل کرنے کے سوال پر سمیع الحسن برنی کا کہنا تھا کہ جسٹس قیوم رپورٹ میں ان کھلاڑیوں کو مستقل ملازمت دینے سے روکا گیا تھا۔

اُن کے بقول وسیم اکرم کو انٹرنیشنل کرکٹ کونسل نے 'ہال آف فیم' میں شامل کیا۔ انگلینڈ کرکٹ بورڈ نے مشتاق احمد کو کوچنگ اسٹاف میں شامل کیا۔ لہذٰا اس 20 سال پرانے معاملے پر وہ مزید کوئی تبصرہ نہیں کر سکتے۔

XS
SM
MD
LG