رسائی کے لنکس

نوجوانوں میں خود کشی کے بڑھتے ہوئے رجحان کی وجہ معاشی مسائل یا ذہنی دباؤ؟


معاشی اور سماجی ماہرین خود کشی کے واقعات کے بڑھتے ہوئے رجحان کی وجہ مہنگائی، معاشی مسائل، وسائل کا مخصوص طبقات تک ارتکاز، ملازمتوں کے مواقع کم ہونے اور  مجموعی اقتصادی صورتِ حال کو قرار دیتے ہیں۔ (فائل فوٹو)
معاشی اور سماجی ماہرین خود کشی کے واقعات کے بڑھتے ہوئے رجحان کی وجہ مہنگائی، معاشی مسائل، وسائل کا مخصوص طبقات تک ارتکاز، ملازمتوں کے مواقع کم ہونے اور  مجموعی اقتصادی صورتِ حال کو قرار دیتے ہیں۔ (فائل فوٹو)

کراچی کے 28 سالہ زوہیر حسن کی شہر کے مشہور لکی ون شاپنگ مال میں تیسری منزل سے خودکشی اس وقت موضوع بحث بنی ہوئی ہے۔

زوہیر کے کزن عرفان حیدر نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ زوہیر اعلیٰ تعلیم یافتہ تھا اور فرسٹ ڈویژن میں آنرز ڈگری حاصل کر چکا تھا اور گزشتہ کافی عرصے سے روزگار کی تلاش میں تھا۔

ان کے مطابق کافی تگ و دو کے باوجود بھی اسے بہتر ملازمت نہیں مل پا رہی تھی جس کی وجہ سے وہ ڈپریشن کا بھی شکار تھا اور اس کا علاج بھی جاری تھا۔

زوہیر کے بارے میں بتایا جا رہا ہے کہ وہ اپنے چار بہن بھائیوں میں سب سے بڑا تھا۔ جب کہ گھر کا خرچ والدہ کی پینشن سے چلتا تھا جو ریٹائرڈ ٹیچر ہیں۔

زوہیر کے کزن عرفان حیدر کا مزید کہنا تھا کہ وہ معاشی مشکلات کی وجہ سے اکثر پریشان رہتا تھا۔ اسے سمجھانے کی کئی بار کوشش بھی کی اور اسے مایوسی اور کم ہمتی ترک کرنے کو بھی کہا۔ البتہ یہ امید نہیں تھی کہ وہ خود کشی جیسا بڑا قدم اٹھائے گا۔

اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان کیوں خودکشی کی جانب مائل ہو رہے ہیں؟

یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں بلکہ ایک ماہ میں خودکشی کا تیسرا ایسا واقعہ ہے جو کراچی میں رپورٹ ہوا اور ذرائع ابلاغ کی شہہ سرخیوں اور سوشل میڈیا پر بحث کا موضوع بنا ہے۔

قبل ازیں مقامی اخبار ’روزنامہ ایکسپریس‘ کے سابق ملازم اور متبادل روزگار کے طور پر رکشہ چلانے والے 35 برس کے فہیم مغل نے بے روزگاری سے تنگ آ کر خود کشی کر لی تھی۔ وہ چھ بچوں کا باپ تھا۔

اس سے قبل چمن سے کراچی میں کام کی غرض سے آئے ہوئے چار بچوں کے باپ ریڑھی بان اسد اللہ نے خود پر پیٹرول چھڑک کر آگ لگا دی تھی۔

اسد کے قریبی دوستوں نے بتایا کہ بڑھتی ہوئی مہنگائی کے باعث اس کا گزارا بڑی مشکل سے ہو رہا تھا اور اس کے پاس گھر بھیجنے کے لیے کوئی رقم نہیں تھی۔ جب کہ گھر والوں کا کہنا ہے کہ بچوں نے بھوک کے باعث والد سے کھانے پینے کی اشیا کی خریداری کے لیے رقم بھیجنے کو کہا تھا۔

مہنگائی کی شرح ایک بار پھر 11 فی صد سے متجاوز

معاشی اور سماجی ماہرین خود کشی کے واقعات کے بڑھتے ہوئے رجحان کی وجہ مہنگائی، معاشی مسائل، وسائل کا مخصوص طبقات تک ارتکاز، ملازمتوں کے مواقع کم ہونے اور مجموعی اقتصادی صورتِ حال کو قرار دیتے ہیں۔

پاکستان میں خودکشی کے بڑھتے واقعات، مسئلہ کیا ہے؟
please wait

No media source currently available

0:00 0:03:31 0:00

ادارہٴ شماریات پاکستان کی جانب سے جاری کردہ حالیہ اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ ماہ ملک میں مہنگائی کی شرح ایک بار پھر 20 ماہ کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی ہے اور چھ ماہ بعد ایک بار پھر دہرے ہندسوں میں داخل ہوتے ہوئے 11.5 فی صد ہوگئی ہے۔

اعداد و شمار کے مطابق ستمبر میں یہ شرح 9.2 فی صد ریکارڈ کی گئی تھی۔

ادارے کے مطابق اس وقت بھی سب سے زیادہ کھانے پینے کی اشیا مہنگی ہیں۔

یاد رہے کہ موجودہ حکومت کے دور میں فروری 2020 میں افراطِ زر کی شرح 12 فی صد سے بھی بلند تھی جو اُس وقت دنیا میں مہنگائی کی بلند ترین شرح تھی۔

بے روزگاری تاریخی اور شرح نمو منفی

غربت کے خاتمے پر کام کرنے کے ماہر اور سابق وفاقی وزیرِ خزانہ ڈاکٹر حفیظ پاشا کا کہنا ہے کہ اس میں کوئی شک نہیں معاشی پریشانیوں میں اضافہ ہوا ہے۔ کرونا وبا کے دوران تقریباََ دو کروڑ افراد غربت کی لکیر سے نیچے چلے گئے ہیں۔ اس وقت پاکستان میں تقریباََ ساڑھے آٹھ کروڑ لوگ غربت کی لکیر سے نیچے یا اس پر زندگی گزار رہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ لوئر مڈل کلاس بہت نیچے آ چکی ہے۔ 19-2018 کے بعد سے افراطِ زر کی رفتار انتہائی تیز رہی ہے۔ کھانے پینے کی اشیا کی قیمتوں میں 40 سے 45 فی صد اضافہ ہو چکا ہے۔ بے روزگاری اس وقت بھی ملک کی تاریخ کی بلند ترین سطح پر یعنی 12 فی صد پر ہے۔ تین سال کے دوران ہماری شرح نمو منفی رہی ہے۔

ڈاکٹر حفیظ پاشا کے بقول ملک میں اس وقت تقریباََ 70 لاکھ نوجوان ایسے ہیں جو تعلیم حاصل کر رہے ہیں اور نہ ہی ان کے پاس روزگار ہے۔ ایسے نوجوان معاشی تنگ دستیوں کی وجہ سے آگے جاکر جرائم میں ملوث ہو جاتے ہیں یا انتہا پسندی کی جانب راغب ہو رہے ہیں یا پھر وہ خودکشیاں کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔

ان کے خیال میں آنے والے دنوں میں مزید حالات خراب ہونے کا اندیشہ ہے۔

ڈاکٹر حفیظ پاشا کا کہنا تھا کہ ملک کا تجارتی خسارہ پہلے چار ماہ میں پانچ ارب ڈالر سے بھی زیادہ بڑھ چکا ہے۔ اور اس کے ساتھ 16-2015 کے بعد پچھلے پانچ سال میں بے تحاشا بیرونی قرضے حاصل کیے اور بیرونی قرضہ بڑھ کر اب 125 ارب ڈالرز سے تجاوز کر چکا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ملک کو قرضے واپس کرنے کے لیے ہر سال تقریباََ 12 ارب ڈالرز، سود کی مد میں تقریباََ چار ارب ڈالرز سالانہ جب کہ تجارتی خسارہ بھی شامل کر لیا جائے تو ہر سال 25 ارب ڈالرز سے زیادہ بیرونی ادائیگیوں کے لیے ضرورت ہے۔

تھرپارکر میں خود کشی کے بڑھتے واقعات، وجہ کیا ہے؟
please wait

No media source currently available

0:00 0:07:43 0:00

انہوں نے دعویٰ کیا کہ ملک کے امیر طبقے کے حالات گزشتہ چند برسوں میں اچھے ہوئے ہیں اور دگنی تعداد میں گاڑیاں خریدی گئی ہیں۔ امیر طبقے کے پاس ہر قسم کی مراعات ہیں۔

خود کشی کے واقعات بڑھنے کی بنیادی وجہ ذہنی تناؤ

دوسری جانب ماہرِ نفسیات اس معاملے کو کسی اور زاویے سے دیکھتے ہیں۔

لیاری جنرل اسپتال میں نفسیات کے ڈاکٹر حفیظ احمد کا کہنا ہے کہ یقینی طور پر خود کشیوں کی معاشی وجوہات ہوتی ہیں ۔ البتہ عام وجوہات جو اس وقت ہمارے معاشرے میں پائی جاتی ہیں وہ درحقیقت ڈپریشن یعنی ذہنی تناؤ اور افسردگی سے تعلق رکھتی ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ مسائل چاہے سماجی یا معاشی ہوں یا خاندانی، خودکشی جیسے انتہائی قدم کرنے والے پہلے ڈپریشن کا شکار ہوتے ہیں۔ وہ امید اور کوشش کو چھوڑ چکے ہوتے ہیں۔ اور افسردگی کو طاری کر لیتے ہیں۔

ڈاکٹر محمد حفیظ نے کہا کہ ڈپریشن میں پہنچ کر بھی ایسے افراد کو کوئی مینٹل سپورٹ یا حوصلہ نہیں ملتا۔ آخر میں ان کے پاس خود کشی کے علاوہ کوئی اور راستہ نہیں ہوتا۔

’خاندان کے ساتھ ریاست کی بھی ذمہ داری‘

جامعہ کراچی کے شعبۂ نفسیات میں استاد پروفیسر ڈاکٹر انیلا امبر ملک کا کہنا ہے کہ خود کشی جیسے انتہائی اقدام کا بڑھتا ہوا رجحان افسوسناک ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ زندگی کے بنیادی مسائل نوجوانوں کے مزاج پر تیزی سے اثر انداز ہو رہے ہیں۔ ایک جانب اس سے نمٹنے کے لیے اہم ذمہ داری جہاں خاندان کی ہے وہیں ریاست کی بھی ذمہ داری بنتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ نوجوانوں کی صحت، تعلیم، روزگار اور دیگر بنیادی مسائل کے حل کے لیے مؤثر انتظامات کیے جائیں۔ جب کہ اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوانوں کو زیادہ سے زیادہ مواقع فراہم کرنے پر توجہ مرکوز کی جائے۔

حل کیا ہے؟

ڈاکٹر حفیظ پاشا کہتے ہیں کہ لوگوں کو ناامیدی کی کیفیت سے نکالنے کے لیے فوری معاشی اصلاحات لانا ہوں گی۔ موجودہ معاشی صورتِ حال سے نکلنے کے لیے ہمیں اپنے کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کو ہر صورت کم کرنا ہوگا۔

انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان کی درآمدات کو، جو اس وقت ماہانہ چھ ارب ڈالرز تک پہنچ چکی ہیں، ہر صورت کم کرکے چار ارب ڈالرز تک لانا ہوگا۔

پاکستان میں خودکشیوں کی وجوہات کیا ہیں؟
please wait

No media source currently available

0:00 0:09:11 0:00

ان کا کہنا تھا کہ روپے کی قدر میں کمی، غیر ضروری اشیا کی درآمدات پر پابندی یا ڈیوٹی میں تین گُنا تک اضافہ، کریڈٹ میں کمی، درآمدات کے لیے کیش مارجن میں اضافہ کرنا ضروری ہے۔ جب کہ مراعات یافتہ طبقے سے ٹیکس لے کر غربت کو کم اور ملازمتوں کے مواقع پیدا کرکے نوجوانوں کو روزگار فراہم کرنا ہوگا۔

البتہ ماہرِ نفسیات ڈاکٹر حفیظ احمد کہتے ہیں کہ ایسے ممالک، جہاں معاشی مسائل نہیں بھی ہیں، وہاں بھی ڈپریشن بہت عام ہے۔ مگر فرق یہ ہے کہ ترقی یافتہ ممالک میں اصل مرض کی تشخیص کر لی جاتی ہے۔

ان کے مطابق اگر ایسے مریضوں کو بروقت رہنمائی، علاج اور بہتر معالج مل جائیں تو وہ خود کشی کے انتہائی اقدام کرنے سے بچ جاتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

XS
SM
MD
LG